کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 179
دوسری حدیثوں میں اتنا اور زیادہ ہے کہ قعود اور انصراف، یعنی بعد نماز کے بیٹھنا یہ بھی اسی قیام کے برابر تھا تو اس میں دریافت طلب یہ امر ہے کہ جب قیام ایسا ہو کہ جس میں سوا پانچ پارے نہایت اطمینان کے ساتھ پڑھے جائیں ، جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے تو کم از کم دو گھنٹے یا اور بھی کم رکھا جائے تو ڈیڑھ گھنٹے سے کم نہیں ہوتا اور پھر دوسرے ارکان جو اتنی اتنی دیر میں وہ بھی ادا کیے جاویں تو فی رکن ڈیڑھ گھنٹے کے حساب سے قیام اور رکوع اور قیام بعد الرکوع، جلسہ بین السجدتین اور دوسرا سجدہ اور قعود اور انصراف یہ سب آٹھ ہوتے ہیں ، تو فی ڈیڑھ گھنٹے کے حساب سے ۱۲ گھنٹے ہوئے، پس جبکہ بموجب آیت قرآن پاک﴿اِِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْمُ اَدْنٰی مِنْ ثُلُثَیِ الَّیْلِ وَنِصْفَہٗ وَثُلُثَہٗ﴾ [المزمل: ۲۰] کے نمازِ لیل کا وقت تہائی رات گزر جانے پر شروع ہوتا ہے تو بس دو تہائی رات جو زیادہ سے زیادہ آٹھ گھنٹے ہوتی ہے، اس میں بارہ گھنٹے کی ایک رکعت کو کوئی کیونکر ادا کر سکتا ہے اور پھر یہ کسی حدیث سے ثابت نہیں ہوتا کہ آپ نے ایک شب میں صرف ایک ہی رکعت پڑھی ہو، کم از کم دو، زیادہ سے زیادہ تیرہ ہیں ، تو جبکہ ایسی نماز پڑھی ہو جس میں ازروئے حساب بارہ گھنٹے ہوتے ہیں اور پھر اور بھی رکعت پڑھی ہوں تو یہ امر کس طرح ممکن ہے؟ المستفتي: سید جواد علی رضوی، محلہ پٹھان، علی گڑھ جواب: آپ نے جو حساب لگایا ہے اور اس کی بنا پر جو یہ لکھا ہے کہ دو تہائی رات جو زیادہ سے زیادہ آٹھ گھنٹہ ہوتی ہے، اس میں اس بارہ گھنٹے کی ایک رکعت کوئی کیونکر ادا کر سکتا ہے اور پھر کسی حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ نے ایک شب میں صرف ایک ہی رکعت پڑھی ہو، کم از کم دو اور زیادہ سے زیادہ تیرہ ہیں ، تو جب کبھی ایسی نماز پڑھی ہو کہ ازروئے حساب بارہ گھنٹہ ہوتے ہیں اور پھر اور رکعت بھی پڑھی ہوں تو یہ امر کیونکر ممکن ہے؟‘‘ اس میں کچھ شک نہیں کہ جیسا کہ عادۃ الله جاری ہے، اس کے مطابق ایسا ہی ہوا کرتا ہے، جیسا کہ آپ نے حساب لگایا ہے اور لکھا ہے، لیکن الله تعالیٰ اس بات پر مجبور نہیں کہ اپنی عادتِ جاریہ کے خلاف کوئی کام نہ کر سکے، بلکہ بسا اوقات بہت سے کام اپنی عادتِ جاریہ کے خلاف بھی کر سکتا ہے۔ الله تعالیٰ نے حضرت آدم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت حوا[ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی عادتِ جاریہ کے خلاف مرد اور عورت کے اکٹھا ہوئے بغیر پیدا کر دیا، اسی طرح عادۃ الله یوں جاری ہے کہ مرد عورت جو بوڑھے نہ ہوئے ہوں ، ان سے اولاد پیدا ہوتی ہے، لیکن الله تعالیٰ نے حضرت مریم اور حضرت سارہ اور حضرت زکریا کو اور ان کی بی بی کو بڑھاپے میں اولاد دے دی، اسی طرح عادۃ الله یوں جاری ہے کہ جب کوئی چیز مسافت بعیدہ سے منگائی جاتی ہے تو اس کے لیے اسی کے مطابق ایک مدت درکار ہوتی ہے، لیکن الله تعالیٰ نے ملکہ سبا کے تخت کو حضرت سلیمان کے پاس مسافت بعیدہ سے چشم زدن سے بھی پہلے ہی پہنچوا دیا، اسی طرح اور بے شمار واقعاتِ صحیحہ ہیں ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دادو علیہ السلام پر زبور پڑھ ڈالنا آسان کر دیا گیا تھا،