کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 175
لہ قراء ۃ لیس بنص في المنع، کما لا یخفی، وحدیث لا تفعلوا إلا بأم القرآن ھو للإیجاب لا للإطلاق المبحث فللمخالف أن یقول: یقدم حدیث عبادۃ لتقدم الإیجاب علیٰ الإباحۃ، وحدیث جابر وإن صح لکن کونہ أصح من حدیث عبادۃ محل تردد" انتھی وقال قاضي القضاۃ إبراھیم بن أبي بکر الحنفي في البرھان شرح مواھب الرحمن بعد نقل قول ابن الھمام علی منع قراء ۃ خلف الإمام بحدیث من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ: ممنوع ومدفوع إلا أن دعوی تضمنہ رد القراء ۃ خلف الإمام معارضۃ بما روي إلی أخیرہ غیر تامۃ لأنھا في حیز المنع، وعلی فرض تسلیمھا یقال إنما نھاہ عنھا بجھر القراء ۃ بدلیل سماعہ لقراء تہ، ولقولہ علیہ السلام : مالي أنازع القرآن؟ لا یثبت المعارضۃ مع إمکان التوفیق فیحمل النھي عنھا علیٰ الجھر لاستلزامہ المنازعۃ المذکورۃ في الحدیث، والأمر بھا علیٰ السر بدلیل قول أبي ھریرۃ في حدیث قسمۃ الصلاۃ: اقرأ بھا في نفسک یا فارسي۔ فلا یتم بھذا القدر المنع عن القراء ۃ خلف الإمام۔ انتھی کلامہ۔ [حدیث: (( من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ )) کو دونوں سفیانوں ، شعبہ اور ایک جماعت نے موسیٰ بن ابی شداد سے مرسل بیان کیا ہے۔ امام بیہقی اور دارقطنی رحمہ اللہ نے اس کے مرسل ہونے کو صحیح قرار دیا ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو سورت فاتحہ کے علاوہ پر محمول کیا ہے۔ انتہیٰ۔ کمال المحققین نے اس حدیث کا اثبات کرنے کے بعد کہا ہے: وہ عبادہ کی حدیث کے معارض ہے، اس کو مطلق طور پر منع کے مقدم ہونے اور قوتِ سند کی وجہ سے مقدم رکھا جاتا ہے، کیونکہ جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث زیادہ صحیح ہے۔ خاص پور پر مذاہبِ صحابہ کے ساتھ قوی ہونے کی بنا پر۔ کذا في المحلیٰ۔ مولوی سلام الله نے ابن الہمام کے قول کے رد میں کہا ہے: حدیث: (( من کان لہ إمام فإن قراء ۃ الإمام لہ قراءۃ )) منع کے بارے میں نص نہیں ہے، جیسا کہ یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے اور حدیث: ((لا تفعلوا إلا بأم القرآن )) یہ ایجاب کے لیے ہے نہ کہ اطلاق کے لیے۔ مخالف یہ کہہ سکتا ہے: عبادہ کی حدیث کو مقدم کیا جائے گا، کیونکہ ایجاب اباحت پر مقدم ہوتا ہے، جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث اگرچہ صحیح ہے، لیکن اس کا عبادہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہونا محل تردد ہے۔ انتھٰی قاضی القضاۃ ابراہیم بن ابی بکر حنفی نے"برہان شرح مواہب الرحمن" میں ابن الہمام کا قول نقل کرنے کے بعد کہ حدیث: (( من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ )) کے ساتھ تو امام کے پیچھے قراء ت ممنوع ہے، کہا ہے کہ یہ ممنوع اور مدفوع ہے، مگر امام کے پیچھے قراء ت کے رد کو متضمن ہونے کا دعویٰ اس کے