کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 174
فإن الجعفي ساقط الحدیث، حتی قال أبو حنیفۃ: ما رأیت أحداً أکذب منہ" انتھی [ابن ماجہ نے بھی حسن بن صالح کے واسطے سے روایت کیا ہے، اس نے جابر جعفی سے، اس نے ابو زبیر رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ جو امام کی اقتدا میں ہو تو امام کی قراء ت اس کی قراء ت ہے، چنانچہ امام دارقطنی اور بیہقی نے اس کو ضعیف کہا ہے۔ پس بلاشبہ جعفی ساقط الحدیث ہے، حتی کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا ہے: میں نے اس (جعفی) سے زیادہ جھوٹا کوئی راوی نہیں دیکھا ہے] اور کہا ابن الجوزی نے ’’العلل المتناھیۃ‘‘ میں : "حدیث: من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ۔ روی عنہ شعبۃ وجماعۃ عن موسیٰ بن أبي شداد، وکلھم أرسلوہ، وإنما ھو قول ابن عمر و ھذا أشبہ بالصواب"[1]انتھی [حدیث: (( من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ )) اس سے شعبہ نے روایت کیا ہے اور ایک جماعت نے موسیٰ بن ابی شداد سے روایت کیا ہے اور ان سب نے اس کو مرسل بیان کیا ہے۔ یہ تو صرف ابن عمر کا قول ہے اور یہی بات زیادہ صحیح ہے] دوسری یہ کہ اگر مان بھی لیا جائے کہ حدیث صحیح ہے تو ہم کہیں گے کہ یہ حدیث محمول ہے اوپر ما سوا سورت فاتحہ کے، جیسا کہ کہا امام بخاری نے ’’جزء القراء ۃ‘‘ میں : "حدیث من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ، لم یثبت لأنہ إما مرسل وإما ضعیف، ولو ثبت لکانت مستثناۃ"[2] [حدیث: (( من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ )) ثابت نہیں ہے، کیونکہ یا تو یہ مرسل ہے یا ضعیف ہے۔ اگر بالفرض یہ ثابت بھی ہو تو سورۃ الفاتحہ اس سے مستثنیٰ ہوگی] نیز محلی میں ہے: "حدیث: من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ، رواہ سفیانان وشعبۃ وجماعۃ عن موسیٰ بن أبي شداد مرسلاً، و صحح البیھقي والدارقطني أنہ مرسل، وحمل البیھقي ھذا الحدیث علی ماعدا الفاتحۃ" انتھی وقال کمال المحققین بعد إثبات الحدیث أنہ یعارض حدیث عبادۃ، ویقدم لتقدم المنع علیٰ الإطلاق، ولقوۃ السند فإن حدیث جابر أصح خصوصاً لتعاضدہ بمذاھب الصحابۃ" کذا في المحلی قال المولوي سلام اللّٰه في رد قول ابن الھمام: حدیث من کان لہ إمام فإن قراء ۃ الإمام
[1] العلل المتناھیۃ (۱/ ۴۲۸) [2] جزء القراء ۃ للبخاري (ص: ۲۰)