کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 173
قولہ تعالیٰ: ﴿فَاقْرَؤا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ﴾ کی صحیح نہیں ہے۔ اس واسطے کہ پڑھنا سورت فاتحہ کا ہر رکعت میں خواہ امام ہو، خواہ مقتدی، فرض ہے بدلیل حدیث مذکور اور دوسری احادیثِ صحیحہ کے جو اِس باب میں وارد ہیں ۔ پس وہ احادیث آیت: ﴿مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ﴾ کی مبین ہوئیں ۔ نیز دلیل پکڑنا ساتھ حدیث اعرابی کے: (( ثم اقرأ ما تیسر معک من القرآن )) [1] کے بھی صحیح نہیں اور جواب اس کا وہی جواب ہے، جو آیت کا دیا گیا، بلکہ ایک روایت میں ابو داود کی اس طرح آیا ہے: ((ثم اقرأ بأم القرآن )) [2] پس یہ آیت مجمل ہے اور حدیث اس کی مبین ہے۔کما لا یخفی علی من لہ أدنی فطانۃ في العلم۔ حاصل یہ ہے کہ پڑھنا سورت فاتحہ کا پیچھے امام کے فرض ہے اور یہی مذہب جمہور محدثین اور خلفاے ثلاثہ یعنی عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنہم کا ہے، جیسا کہ معالم التنزیل میں موجود ہے اور عبارت اس کی یہ ہے: "وذھب جماعۃ إلی إیجابھا سواء جہر الإمام أو أسر، وروي ذلک عن عمر و عثمان و علي رضی اللّٰه عنہم "[3] انتھیٰ [ایک جماعت اس کے وجوب کی طرف گئی ہے، خواہ امام جہری قراء ت کرے یا مخفی اور یہی موقف عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم سے مروی ہے] قال اللّٰه تعالیٰ: ﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃً﴾ وقال النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( علیکم بسنتي وسنۃ الخلفاء الراشدین )) [4] الحدیث [ الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’بلاشبہ یقینا تمہارے لیے الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہمیشہ سے ایک اچھا نمونہ ہے۔‘‘ اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: میری اور خلفاے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو] اور تمسک پکڑنا ساتھ حدیث: (( من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ )) [5] [جو امام کی اقتدا میں ہو تو امام کی قراء ت اس کی قراء ت ہے] کے اوپر عدمِ جواز قراء ۃ خلف الامام کے باطل ہے دو وجہ سے: ایک تو یہ کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور راوی اس کا جابر جعفی ہے اور وہ عند المحدثین ضعیف ہے، بلکہ کہا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہ نہیں دیکھا، میں نے کسی کو جھوٹا زیادہ اس سے، جیسا کہ محلی میں ہے: "وروی ابن ماجہ أیضاً من طریق حسن بن الصالح عن جابر الجعفي عن أبي الزبیر عن جابر مرفوعاً: (( من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ )) وضعفہ الدارقطني والبیھقي،
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۷۲۴) [2] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۸۵۹) [3] معالم التنزیل للبغوي (۳/ ۳۲۰) [4] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۶۷۶) [5] سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۸۵۰)