کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 172
اور اس سے صلح کر کے اس کی طرف ہدیہ روانہ کیا تھا] ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے: "ثقۃ ثقۃ لا شبھۃ عندنا، وعند محققي المحدثین"[1] [(ابن اسحاق) ثقہ ہے، ثقہ ہے۔ ہمارے نزدیک اور محقق محدثین کے نزدیک اس کے ثقہ ہونے میں کوئی شبہہ نہیں ] اور ضعیف کہنا حدیث (( لا صلاۃ)) کو جو بخاری نے روایت کیا ہے اور وہ اوپر مذکور ہو چکی ہے، کمال نادانی ہے، اس واسطے کے تمام علما قدیماً و حدیثاً کا اس پر اتفاق ہے کہ احادیث صحیحین کی سب صحیح ہیں ، چنانچہ شاہ ولی الله محدث دہلوی ’’حجۃ اللّٰه البالغۃ‘‘ کے صفحہ (۱۳۹) میں فرماتے ہیں : "أما الصحیحان فقد اتفق المحدثون علیٰ أن جمیع ما فیھما من المتصل المرفوع صحیح بالقطع، وأنھما متواتران إلی مصنفیھما، وأنہ کل من یھون أمرھما فھو مبتدع متبع غیر سبیل المؤمنین" انتھی یعنی لیکن صحیحین پس بے شک اتفاق کیا ہے محدثین نے اس بات پر کہ تمام حدیثیں متصل، مرفوع ان دونوں میں صحیح ہیں یقینا اور وہ دونوں متواتر ہیں اپنے مصنف تک اور جو شخص اہانت کرے حکم ان دونوں کا پس وہ مبتدع ہے، متبع ہے خلاف راہ مسلمانوں کی۔ اور حمل کرنا حدیث (( لا صلاۃ )) کو اوپر نفی کمال کے جائز نہیں ، اس واسطے کہ اصل نفی میں نفی ذات کی معتبر ہے اور نفی ذات کی نہ ہو سکے تو رجوع کیا جاتا ہے طرف اقرب مجاز کے اور اقرب مجاز نفی ذات کی نفی صحت ہے نہ کہ نفی کمال اور حدیث ((لا صلاۃ)) میں نفی ذات کی مراد ہے، اس واسطے کہ کوئی قرینہ یہاں نہیں پایا جاتا کہ مراد نفی سے نفی کمال ہے، بلکہ روایت میں ابن حبان اور دارقطنی کے یوں آیا ہے: (( لا تجزیٔ صلاۃ إلا بقراء ۃ فاتحۃ الکتاب )) [2]قال الدارقطني: صحیح و صححہ ابن القطان۔ یعنی نہیں کافی ہوتی نماز جس میں سورت فاتحہ نہ پڑھی جائے۔ پس یہ حدیث مفسر ہے ساتھ حدیث (( لا صلاۃ )) کے، پس معلوم ہوا کہ مراد یہاں نفی سے نفی ذات کی ہے، اس واسطے کہ جو نماز کفایت نہ کرے، وہ نماز ہی نہیں اور اسی کے موید ہے قول حضرت عمر بن الخطاب و جابر بن عبد اللّٰه و عمران بن حصین و غیرہم رضی اللّٰه عنہم کا کہ خود اُن حضرات نے تفسیر (( لا صلاۃ )) کی یوں بیان کی ہے: "قالوا: لا تجزیٔ صلاۃ إلا بقراء ۃ فاتحۃ الکتاب" کذا في الترمذي۔[3] یعنی کہا ان لوگوں نے کہ نہیں کفایت کرتی نماز مگر ساتھ قراء تِ فاتحہ کے۔ پس جب حدیث دوسری اس کی مفسر آچکی اور خود صحابہ کرام سے تفسیر آچکی تو اسے نفی کمال سمجھنا محض جہالت اور نادانی ہے اور نفی کمال کی سمجھنا بدلیل
[1] فتح القدیر (۱/ ۴۲۴) [2] سنن الدارقطني (۱/ ۳۲۱) صحیح ابن حبان (۵/ ۹۱) [3] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۷۴)