کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 171
اور حدیث عبادہ کو روایت کیا ہے ابن حبان، دار قطنی اور بیہقی نے بھی اور صحیح کہا ہے، جیسا کہ محلی شرح موطا میں ہے: "وحدیث عبادۃ ھذا رواہ الدارقطني أیضاً و ابن حبان والبیھقي، قال الترمذي: حسن، وقال الدارقطني: رجالہ ثقات وإسنادہ حسن وقال الخطابي: إسنادہ جید، لا مطعن فیہ، وقال الحاکم: إسنادہ مستقیم، وقال البیھقي: صحیح" انتھی [عبادہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو امام دارقطنی، ابن حبان اور بیہقی رحمہم اللہ نے بھی روایت کیا ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے کہا ہے: یہ حدیث حسن ہے۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے کہا ہے: اس کے رجال ثقہ اور اس کی اسناد حسن ہے۔ امام خطابی رحمہ اللہ نے کہا ہے: اس کی اسناد جید ہے، اس میں کوئی طعن نہیں ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے کہا ہے: اس کی اسناد مستقیم ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے کہا ہے: یہ صحیح ہے] اور روایت کیا اس حدیث کو بخاری نے بھی ’’جزء القراء ۃ‘‘[1] میں اور صحیح کہا اس محمد بن اسحاق کو، جو راوی اس حدیث کا ہے، توثیق اس کی بخوبی بیان کی ہے اور ابن الہمام نے بھی ’’فتح القدیر‘‘ میں محمد بن اسحاق کی توثیق کی ہے اور عبارت اس کی یہ ہے: "ھذا إن صح الحدیث بتوثیق ابن إسحاق، وھو الحق، وما نقل عن کلام مالک فیہ لا یثبت، ولو صح لم یقبل أھل العلم، وقد قال شعبۃ فیہ: ھو أمیر المؤمنین في الحدیث، وروی عنہ مثل الثوري وابن إدریس و حماد بن زید و یزید بن زریع وابن علیۃ و عبد الوارث و ابن المبارک، واحتملہ أحمد و ابن معین وعامۃ أھل الحدیث، غفر اللّٰه لھم، وقد أطال البخاري في توثیقہ في کتاب القراء ۃ خلف الإمام، وذکرھا ابن حبان في الثقات وأن مالکا رجع عن الکلام في ابن إسحاق واصطلح معہ وبعث إلیہ ھدیۃ"[2] انتھی [یہ تب ہے، جب ابن اسحاق کے ثقہ ہونے کے ساتھ حدیث صحیح ہو اور یہی حق ہے۔ رہا اس (ابن اسحاق) کے بارے میں امام مالک رحمہ اللہ کا کلام تو وہ ثابت نہیں ہے اور اگر وہ ثابت بھی ہو تو اہلِ علم نے اس کو قبول نہیں کیا ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے، جب کہ شعبہ رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں کہا ہے: وہ امیر المومنین فی الحدیث ہے۔ ان سے ثوری، ابن ادریس، حماد بن زید، یزید بن زریع، ابن علیۃ، عبد الوارث اور ابن المبارک رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔ امام احمد، ابن معین اور عام اہل الحدیث نے ان کی روایت کو قبول کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب القراء ۃ خلف الامام میں ان کی توثیق پر طویل کلام کیا ہے۔ ابن حبان رحمہ اللہ نے ثقات میں ان کا شمار کیا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے ابن اسحاق کے بارے میں کلام سے رجوع کر لیا تھا
[1] جزء القراء ۃ للبخاري، رقم الحدیث (۱۵۸) [2] فتح القدیر (۱/ ۲۲۸)