کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 166
"عن عائشۃ عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم قال: ما حسدتکم الیھود علی شییٔ ما حسدتکم علی السلام والتأمین"[1]
[سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہودی تم سے کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کرتے، جتنا سلام اور آمین کہنے پر تم سے حسد کرتے ہیں ]
اور حدیث وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کو روایت کیا ترمذی نے بھی اور کہا ترمذی نے:
"حدیث وائل بن حجر رضی اللّٰه عنہ حدیث حسن، وبہ یقول غیر واحد من أھل العلم من أصحاب النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم والتابعین ومن بعدھم، یرون أن یرفع الرجل صوتہ بآمین، ولا یخفیھا، وبہ یقول الشافعي وأحمد وإسحاق"[2]
[وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث، حسن ہے۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب، تابعین اور اتباع التابعین میں سے کئی اہلِ علم اس کے قائل ہیں ۔ ان سب کا یہ موقف تھا کہ آدمی آمین کے ساتھ اپنی آواز بلند کرے اور اسے پست نہ کرے۔ امام شافعی، احمد اور اسحاق رحمہم اللہ بھی اسی کے قائل ہیں ]
اور حدیث (( خفض بھا صوتہ )) کی جو روایت کیا ہے ترمذی نے، خطا کیا ہے شعبہ نے کئی بات میں ، چنانچہ ترمذی خود کہتا ہے:
"سمعت محمداً یقول: حدیث سفیان أصح من حدیث شعبۃ في ھذا، وأخطأ شعبۃ في مواضع من ھذا الحدیث فقال: عن حجر أبي العنبس، وإنما ھو حجر بن العنبس، ویکنی أبا سکن، وزاد فیہ علقمۃ بن وائل، ولیس فیہ عن علقمۃ بن وائل، و إنما ھو عن حجر بن عنبس، عن وائل بن حجر، وقال: وخفض بھا صوتہ، وإنما ھو مد بھا صوتہ"[3] انتھی
[میں نے امام محمد (بن اسماعیل البخاری) کو یہ کہتے ہوئے سنا: اس سلسلے میں سفیان کی حدیث شعبہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ شعبہ نے اس حدیث میں کئی جگہ غلطی کی ہے: چنانچہ اس نے کہا ہے: ’’عن حجر أبي العنبس‘‘ جب کہ اصل میں یہ ’’حجر بن العنبس‘‘ ہے اور اس کی کنیت ابو سکن ہے۔ اس نے اس کی سند میں علقمہ بن وائل کا اضافہ کر دیا ہے، حالانکہ اس میں علقمہ بن وائل نہیں ہے۔ یہ تو حجر بن عنبس سے مروی ہے، جو وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں ۔ نیز اس نے اس حدیث میں یہ لفظ بیان کیے ہیں : ’’خفض بھا صوتہ‘‘ (انھوں نے اس (آمین) کے ساتھ آواز کو پست کیا) جب کہ
[1] سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۶۵۶)
[2] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۴۸)
[3] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۴۸)