کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 163
سے مروی حدیث، جس میں وہ کہتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم نماز میں (سلام پھیرتے وقت) اپنے ہاتھوں کو اُٹھائے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے کیا ہے کہ میں تمھیں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنے ہاتھ اُٹھاتے ہو، جیسے سرکش گھوڑوں کی دُمیں ہوتی ہیں ، نماز میں سکون اختیار کرو۔‘‘ سے بعض نہ جاننے والوں نے احتجاج کیا ہے (مگر ان کا یہ احتجاج درست نہیں ہے) اس لیے کہ ان کا یوں ہاتھ اُٹھانا تشہد میں تھا نہ کہ قیام میں ۔ وہ ایک دوسرے کو سلام کہتے تھے تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تشہد میں ہاتھ اُٹھانے سے منع کر دیا، جس کو علم کا تھوڑا سا بھی حصہ ملا ہے، وہ اس سے (ترکِ رفع پر) احتجاج نہیں کرتا ہے۔ چنانچہ یہ بات معروف و مشہور ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے، اگر مذکورہ حدیث کا یہی مطلب ہوتا تو پھر تکبیر تحریمہ کے وقت نیز عیدین کی تکبیرات میں بھی ہاتھوں کو اُٹھانا منع ہوتا، کیونکہ مذکورہ روایت کسی رفع یدین کو مستثنیٰ نہیں کرتی]
پس دعویٰ کرنا احناف کرام کا کہ حدیث رفع یدین کی مسنوخ ہے، دعویٰ بلا دلیل ہے۔ کما عرفت منا سابقاً، اور فقہاے محققین نے بھی اس کے ثبوت اور سنت ہونے کا اقرار کیا ہے۔ دیکھو مولانا عبد العلی حنفی لکھنوی ارکانِ اربعہ میں فرماتے ہیں : "إن ترک فھو حسن، وإن فعل فلا بأس بہ"انتھیٰ کلامہ۔ [اگر وہ چھوڑ دے تو اچھا ہے اور اگر کرے تو کوئی حرج نہیں ہے] شیخ عبد الحق محدث دہلوی شرح سفر السعادۃ میں فرماتے ہیں : ’’پس چارہ نیست لکن اکثر فقہاء و محدثین اثبات آں میکنند‘‘ انتھی [پس کوئی چارہ نہیں ہے، لیکن اکثر فقہاء و محدثین اس کا اثبات کرتے ہیں ] شاہ ولی الله محدث دہلوی ’’حجۃ اللّٰه البالغۃ‘‘ میں فرماتے ہیں :
"والذي یرفع أحب إلي ممن لا یرفع، لأن أحادیث الرفع أکثر وأثبت"[1]انتھی کلامہ۔
[جو رفع یدین کرتا ہے، وہ مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے، جو رفع یدین نہیں کرتا، کیونکہ رفع یدین کی احادیث زیادہ ہیں اور زیادہ ثابت شدہ ہیں ]
حاصل ان عبارات کا یہ ہے کہ رفع یدین کا کرنا سنت ہے اور یہی مذہب ہے تمام محدثین قدیماً و حدیثاً کا، جیسا کہ اوپر گزرا اور جو شخص باوجود اس تحقیق کے از راہِ حمیتِ مذہبی کے منکر ہو تو وہ داخل ہے، تحت اس آیتِ کریمہ کے:
﴿وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًا﴾ [النساء: ۱۱۵]
[اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے، اس کے بعد کہ اس کے لیے ہدایت خوب واضح ہو چکی اور مومنوں کے راستے کے سوا (کسی اور) کی پیروی کرے، ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے، جس طرف وہ پھرے گا اور ہم اسے جہنم میں جھونکیں گے اور وہ بری لوٹنے کی جگہ ہے]
[1] حجۃ اللّٰه البالغۃ (ص: ۴۳۴)