کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 162
ورحمۃ اللّٰه ، وأشار بیدہ إلی الجانبین، فقال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : علام تؤمنون بأیدیکم کأنھا أذناب خیل شمس؟ إنما یکفي أحدکم أن یضع یدہ علی فخذہ، ثم یسلم علی أخیہ من علی یمینہ وشمالہ"[1] [فرمایا: جب ہم رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز ادا کرتے تھے تو ہم کہتے تھے: ’’السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه ، السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه ‘‘ اور دونوں جانب ہاتھ سے اشارہ کرتے۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے ہاتھوں سے یوں اشارہ کرتے ہو، گویا وہ سرکش گھوڑوں کی دُمیں ہیں ، تمہارے ہر ایک کو یہی کافی ہے کہ وہ اپنا ہاتھ اپنی ران پر رکھے، پھر دائیں اور بائیں اپنے بھائیوں کو سلام کہے] امام نووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں اس حدیث کے تحت میں فرماتے ہیں : ’’والمراد بالرفع المنھي عنہ ھھنا رفعھم أیدیھم عند السلام مشیرین إلی السلام من الجانبین، کما صرح بہ في الروایۃ الثانیۃ‘‘[2] انتھی کلامہ [اس حدیث میں جو ہاتھ اُٹھانے سے منع کیا گیا ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ وہ سلام پھیرتے وقت اپنے ہاتھ اُٹھاتے تھے اور سلام کے ساتھ (دائیں اور بائیں ) دونوں جانب اشارہ کرتے تھے، جیسا کہ دوسری روایت میں اس کی صراحت کی گئی ہے] چونکہ یہ رفع یدین ما سوا ہے رفع یدین اول کے، اس لیے اس کو باب التشہد میں ذکر کیا۔ اگر مان بھی لیا جائے تو لازم آئے گا خصم پر باطل اور منہی ہونا رفع یدین وقت تکبیر تحریمہ اور عیدین کا۔ امام بخاری ’’جزء رفع الیدین‘‘ میں فرماتے ہیں : "فأما احتجاج بعض من لا یعلم بحدیث وکیع عن الأعمش عن المسیب بن رافع عن تمیم بن طرفۃ عن جابر بن سمرۃ رضی اللّٰه عنہ قال: دخل علینا النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم ونحن رافعو أیدینا في الصلاۃ، فقال: ما لي أراکم رافعي أیدیکم کأنھا أذناب خیل شمس؟ اسکنوا في الصلاۃ، فإنما کان ھذا في التشھد لا في القیام، کان یسلم بعضھم علی بعض، فنھی النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم عن رفع الأیدي في التشھد، ولا یحتج بھذا من لہ حظ من العلم، ھذا معروف مشھور لا اختلاف فیہ، ولو کان کما ذھب إلیہ لکان رفع الأیدي في أول التکبیرۃ وأیضاً بتکبیرات صلاۃ العید منھي عنھا، لأنہ لم یستثن رفعا دون رفع"[3] انتھی کلامہ [وکیع کی اعمش سے، ان کی مسیب بن رافع سے، ان کی تمیم بن طرفہ سے اور ان کی جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۴۳۱) [2] شرح صحیح مسلم (۴/ ۱۵۳) [3] جزء رفع الیدین (ص: ۱۰)