کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 155
یصح حدیث یزید في رفع الیدین "ثم لا یعود" وقال عباس الدوري عن یحییٰ بن معین: لیس ھو بصحیح الإسناد"[1]انتھی ما قالہ العیني۔ [امام خطابی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ شریک کے علاوہ کسی نے ’’ثم لا یعود‘‘ کے الفاظ ذکر نہیں کیے ہیں ۔ ابو عمر نے کہا ہے کہ یزید اس کے ذکر میں متفرد ہے، جن حفاظ سے روایت کی ہے، ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ قول ’’ثم لا یعود‘‘ ذکر نہیں کیا۔ امام بزار رحمہ اللہ نے کہا ہے: رفع الیدین کے بارے میں ’’ثم لا یعود‘‘ والی یزید کی روایت درست نہیں ہے۔ عباس نے کہا ہے کہ یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ روایت صحیح الاسناد نہیں ہے] امام ابن حبان اپنی کتاب ’’الضعفاء‘‘ میں فرماتے ہیں : "یزید بن أبي زیاد کان صدوقا إلا أنہ لما کبر تغیر فکان یلقن فیتلقن فسماع من سمع منہ قبل دخولہ الکوفۃ في أول عمرہ سماع صحیح، وسماع من سمع منہ آخر قدومہ الکوفۃ لیس بصحیح"[2] انتھی ما في کتاب الضعفاء لابن حبان۔ [یزید بن ابی زیاد صدوق راوی تھا، مگر جب وہ بوڑھا ہوگیا تو اس کا حافظہ متغیر ہوگیا۔ پس اس کو تلقین کی جاتی تو وہ تلقین کو قبول کر لیتا، چنانچہ جس نے اس کی اول عمر میں اس کے کوفے میں جانے سے پہلے اس سے سماع کیا تو اس کا سماع درست شمار ہوگا اور جس نے اس کے کوفے میں داخل ہونے کے بعد اس سے سماع کیا تو اس کا سماع صحیح نہیں ہے] تیسرے یہ کہ ابو داود نے بعد نقل اس حدیث کے یہ فرمایا ہے کہ اس حدیث کو اور لوگوں نے بھی روایت کیا ہے، مگر ’’لا یعود‘‘ کا نہیں ذکر کیا: "قال أبو داود: روی ھذا الحدیث ھشیم و خالد و ابن إدریس عن یزید، ولم یذکروا: ثم لا یعود"[3] [امام ابو داود رحمہ اللہ نے کہا ہے: ہشیم اور خالد اور ابن ادریس نے اس حدیث کو یزید سے روایت کیا ہے، لیکن انھوں نے ’’ثم لا یعود‘‘ کے الفاظ ذکر نہیں کیے ہیں ] پس یہ حدیث بالکل پایۂ اعتبار سے ساقط ہے دو وجہ سے: ایک تو یہ کہ دو راوی اس حدیث میں ضعیف ہیں ۔ دوسرا یزید بن ابی زیاد، جیسا کہ اوپر کی عبارت سے معلوم ہوا۔ جب کوفہ میں تشریف لے گئے تو لفظ ’’لا یعود‘‘ کا بڑھا دیا، جیسا کہ آیندہ کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے۔ فلینتظر۔ ابو داود نے حدیثِ براء کو دوسری سند سے، یعنی
[1] عمدۃ القاري (۵/ ۲۷۳) [2] کتاب الضعفاء (۳/ ۱۰۰) [3] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۷۵۰)