کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 153
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع یدین ترک کیا ہو اور نہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی صحابی سے یہ ثابت ہے کہ اس نے رفع یدین نہ کیا ہو] بلکہ روایت کیا امام بخاری نے جزء رفع الیدین میں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما جس شخص کو دیکھتے کہ نماز میں رفع یدین نہیں کرتا ہے، اس کو کنکری سے مارتے تھے اور یہ روایت نافع سے اوپر گزر چکی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ رفع یدین کو ایک امر موکد سمجھتے تھے، جس کو ہم لوگ تعبیر ساتھ سنت موکدہ کے کرتے ہیں ۔ فثبت المطلوب بلا کلفۃ۔ باقی رہی حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی جو روایت کیا ہے ترمذی اور ابو داود نے علقمہ سے: "قال: قال لنا ابن مسعود: ألا أصلي بکم صلاۃ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فصلی ولم یرفع یدیہ إلا مرۃ واحدۃ مع تکبیرۃ الافتتاح"[1] [(علقمہ نے) کہا کہ عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں تمھیں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ پڑھ کر دکھاؤں ؟ چنانچہ انھوں نے نماز پڑھی اور اپنے ہاتھ تکبیرِ تحریمہ کے ساتھ صرف ایک ہی بار اُٹھائے] اور یہی دلیل احناف کرام کی ہے، سو یہ حدیث صحیح نہیں ہے، چنانچہ خود ابو داود کہتا ہے: ’’ھذا حدیث مختصر من حدیث طویل، لیس ھو بصحیح علی ذلک اللفظ‘‘ [یہ حدیث ایک لمبی حدیث سے مختصر ہے اور ان الفاظ میں صحیح نہیں ہے] اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تخریج رافعی میں فرماتے ہیں : "وقال ابن المبارک: لم یثبت عندي، وضعفہ أحمد و شیخہ یحییٰ بن آدم و البخاري وأبو داود و أبو حاتم والدارقطني والدارمي والحمیدي الکبیر والبیھقي"[2] [ابن المبارک نے کہا ہے کہ میرے ہاں یہ ثابت نہیں ہے۔ امام احمد اور ان کے شیخ یحییٰ بن آدم، بخاری، ابو داود، ابو حاتم، دارقطنی، دارمی، حمیدی کبیر اور بیہقی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے] نیز ابن حبان فرماتے ہیں: "ھذا أحسن خبر روي لأھل الکوفۃ، وھو في الحقیقۃ أضعف شیئاً یعول علیہ، لأن لہ علۃ تبطلہ"[3] ھکذا في الدراسات [یہ سب سے زیادہ بہتر حدیث ہے، جو اہلِ کوفہ کے لیے روایت کی گئی ہے، مگر فی الحقیقت یہ وہ کمزور ترین چیز ہے، جس پر اعتماد کیا جاتا ہے، کیونکہ اس میں ایک ایسی علت پائی جاتی ہے، جو اس کو باطل قرار دیتی ہے]
[1] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۷۴۸) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۵۷) [2] التلخیص الحبیر (۱/ ۲۲۲) [3] جزء رفع الیدین (ص: ۹)