کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 152
"ثم استمر بہ صلی اللّٰه علیہ وسلم حتی فارق الدنیا، وھو زیادۃ البیھقي علیٰ الحدیث المتفق علیہ عن الزھري عن سالم عن ابن عمر: فما زالت تلک صلاتہ حتی لقي اللّٰه تعالیٰ، قال ابن المدیني في حدیث الزھري عن سالم عن أبیہ: ھذا الحدیث عندي حجۃ علی الخلق، وکل من سمعہ فعلیہ أن یعمل بہ لأنہ لیس في إسنادہ شییٔ، حکاہ الحافظ في تخریج أحادیث الرافعي، ولکونہ لم ینسخ بعد حجیتہ وتواترہ وروایتہ عن جم غفیر من الصحابۃ کان معمولاً في الصحابۃ بعد النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم" انتھی کلامہ
[پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات تک اس (رفع الیدین) پر عمل کرتے رہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے متفق علیہ حدیث پر زہری، سالم اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی وہ زیادتی بھی بیان کی ہے، جس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ یہ نماز پڑھتے رہے، حتی کہ الله تعالیٰ کو جا ملے۔ ابن مدینی نے زہری، سالم اور وہ اپنے باپ سے مروی حدیث کے بارے میں کہا ہے کہ یہ حدیث میرے نزدیک لوگوں پر حجت ہے، لہٰذا جو بھی اس کو سنے اس پر یہ واجب ہے کہ وہ اس پر عمل کرے، کیونکہ اس کی اسناد میں کوئی ضعف نہیں ہے، اس کو حافظ نے رافعی کی احادیث کی تخریج میں حکایت کیا ہے۔ اس لیے کہ یہ حدیث اپنی حجت، تواتر اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایک جمِ غفیر سے اس روایت کے بعد منسوخ نہیں ہوتی اور یہ حدیث ان صحابہ کے ہاں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد معمول بہ تھی]
ناظرین پر پوشیدہ نہ رہے کہ یہاں سے بھی معلوم ہوا ہے کہ رفع یدین کا کرنا سنتِ موکدہ ہے، کیونکہ تعریف سنتِ موکدہ کی یعنی"ما واظب علیہ النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم مع الترک أحیانا" [جس پر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشگی کی ہو اور بعض اوقات اسے ترک بھی کیا ہو] صادق آتی ہے۔ کما لا یخفی۔ بلکہ نہ کرنا رفع الیدین کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بار بھی صحیح روایتوں سے ثابت نہیں ہوتا ہے، جیسا کہ امام بخاری جزء رفع الیدین میں فرماتے ہیں :
"ولم یثبت عند أھل النظر ممن أدرکنا من أھل الحجاز وأھل العراق منھم عبد اللّٰه بن الزبیر و علي بن عبد اللّٰه بن جعفر و یحییٰ بن معین و أحمد بن حنبل و إسحاق بن راھویہ، ھؤلاء أھل العلم من بین أھل زمانھم، فلم یثبت عند أحد منھم علمنا في ترک رفع الأیدي عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم ولا أحد من أصحاب النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم أنہ لم یرفع یدیہ"[1] انتھی کلامہ
[اہلِ حجاز اور اہلِ عراق کے جن اہلِ نظر سے ہماری ملاقات ہوئی ہے، ان سے یہ ثابت نہیں ہے، جن میں عبد الله بن زبیر، علی بن عبد الله بن جعفر، یحییٰ بن معین، احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ شامل ہیں ۔ یہ لوگ اپنے دور کے لوگوں کے درمیان اہلِ علم تھے۔ ان میں سے کسی ایک کے ہاں بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ
[1] جزء رفع الیدین (ص: ۱۱)