کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 134
یعنی اونچی جگہ پر اذان کہنا سنت ہے اور زمین پر اقامت کہنا اور جس روز سے اذان مسنون ہوئی، حضرت بلال رضی اللہ عنہ ام زید بن ثابت کے مکان کے اوپر اذان پکارتے رہے، یہاں تک کہ مسجد نبوی قائم ہوگئی تو مسجد کی چھت پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان پکارتے تھے اور اس کے لیے مسجد کی چھت پر اونچی جگہ بنا دی گئی۔ طحطاوی میں ہے: ’’قال عبد اللّٰه : فمضیت بعد الانتباہ إلی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فأخبرتہ بذلک فقال: رؤیا حق، ألقہ علیٰ بلال، فإنہ أندیٰ منک صوتاً، فألقیتھا علیہ، فقام علیٰ أعلی سطح في المدینۃ فجعل یؤذن‘‘[1] انتھی یعنی جس روز حکم اذان کا نازل ہوا، اسی روز حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ کی بڑی اونچی چھت پر کھڑے ہو کر اذان دینا شروع کیا۔ نیز اسی میں ہے: ’’(قولہ: في مکان عال) کالمنارۃ، و أول من أحدثھا مسلمۃ بن مخلد الصحابي، کما في سیرۃ الحلبي، وکان أمیراً علیٰ مصر من طرف معاویۃ اھ۔ أبو السعود‘‘ انتھی [بلند جگہ سے مراد منارہ وغیرہ ہے۔ سیرت حلبی میں ہے کہ سب سے پہلے مسلمہ بن مخلد صحابی نے اذان کے لیے منارہ بنایا۔ موصوف معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مصر کے امیر تھے] در مختار (۱/ ۳۵۷) میں ہے: ’’مؤکدۃ ھي کالواجب في لحوق الاثم للفرائض الخمس‘‘ انتھی یعنی اذان سنت موکدہ ہے، یہ سنت مثل واجب کے ہے لحوق اثم میں واسطے فرائض پنج گانہ کے اور اسی میں جمعہ بھی داخل ہے۔ چنانچہ طحطاوی میں ہے: ’’دخلت الجمعۃ۔ حلبی‘‘ شامی میں ہے: ’’دخلت الجمعۃ۔ بحر‘‘[2]یعنی جس طرح اذان پنج گانہ کے لیے سنت موکدہ ہے یا واجب، اسی طرح نمازِ جمعہ کے لیے ہے اور جیسے ان کی اذان اونچی جگہ اور مسجد کی چھت پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ پکارتے تھے، ویسے ہی جمعہ کی اذان ثانی مسجد کی چھت پر مرفوع مخصوص جگہ پکارتے تھے، اسی لیے صحیح بخاری و مسلم و ترمذی و نسائی و ابن ماجہ میں ’’مئذنۃ‘‘ مخصوص واسطے اذان ثانی کے مروی نہیں ہے اور نہ ’’یؤذن علیٰ الأرض داخل المسجد‘‘ مروی ہے، البتہ ابو داود میں ’’علیٰ باب المسجد‘‘ مروی ہے،[3] ’’علیٰ‘‘ یا تو استعلاء حقیقی کے لیے یہاں پر ہے: ’’أي علیٰ سطح باب المسجد‘‘ یا واسطے استعلاء مجازی کے ہے، نہ ظرفیت کے اور مراد پیش دروازہ مسجد ہے، جیسے کہ محاورہ اُردو میں بولتے ہیں : فلاں کے دروازے پر جماؤ ہے۔ ابو داود کی روایت میں ’’بین یدي رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ‘‘ ہے اور بخاری و ترمذی و ابن ماجہ و نسائی و شافعی کی روایت میں یہ نہیں ہے۔
[1] نیز دیکھیں : سنن أبي داود، رقم الحدیث (۴۹۹) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۷۰۶) [2] رد المحتار (۳/ ۱۸۴) [3] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۱۰۸۸) اس کی سند ضعیف ہے، کیوں کہ اس کی سند میں محمد بن اسحاق راوی مدلس ہے۔