کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 133
2۔ اذان ثانی جو بروز جمعہ وقت بیٹھنے خطیب کے منبر پر پکاری جاتی ہے، یہ اذان کس جگہ ہونی چاہیے؟ آیا مسجد کے اندر خطیب و منبر کے قریب، جیسا کہ رائج ہے یا مسجد کے باہر اونچی جگہ پر؟ 3۔ جمعہ کی دونوں اذانوں کے لیے کتنے موذن ہوں ؟ اس لیے کہ ہدایہ وغیرہا میں ’’مؤذنون‘‘ بصیغہ جمع آیا ہے؟ جواب: 1۔و2۔ اذان پنج گانہ و ہر دو اذانِ جمعہ سنت موکدہ ہیں ، بلکہ بعضوں نے اس پر اطلاق واجب کا کیا ہے۔ یہ اذانیں بلند جگہ، یعنی مسجد کے چھت یا منارہ پر ہونا چاہیے، چنانچہ ’’شرعۃ الإسلام‘‘ میں ہے: ’’ومن سنتہ أن یؤذن في أرفع مکان، فإنہ أمد لصوتہ‘‘ یعنی اذان میں سنت یہ ہے کہ اونچی جگہ پر اذان پکارے، اس لیے کہ اس سے اس کی آواز دور تک جاتی ہے۔ در مختار (۱/ ۳۵۵) میں لکھا ہے: ’’ھو لغۃ: الإعلام، وشرعا: إعلام مخصوص، لم یقل بدخول الوقت، لیعم الفائتۃ، وبین یدي الخطیب علیٰ وجہ مخصوص بألفاظ کذلک أي مخصوصۃ‘‘ انتھی [اذان کا لغوی معنی اطلاع دینا ہے اور اس کا شرعی معنی مخصوص (کلماتِ اذان کے ساتھ) اطلاع دینا ہے۔ اس کو دخولِ وقت کے ساتھ خاص نہیں کیا، تاکہ یہ فوت شدہ نماز کی اذان اور خطیب کے منبر پر بیٹھنے کے بعد اس کے سامنے کھڑے ہو کر مخصوص طریقے اور الفاظ کے ساتھ کہی جانے والی اذان کو بھی شامل ہو جائے] طحطاوی اور شامی میں ہے: ’’(قولہ: لیعم الفائتۃ الخ) أي لیعم الأذان أذان الفائتۃ والأذان بین یدي الخطیب‘‘[1] انتھی۔ یعنی اذان شامل ہے اذانِ فائتہ [فوت شدہ نماز] کو اور اس اذان کو جو خطیب کے صعودِ منبر کے بعد کہی جاتی ہے۔ پھر در مختار میں لکھا ہے: ’’وھو سنۃ للرجال في مکان عال‘‘[2]اھ [یہ (اذان) مردوں کا کسی بلند جگہ پر کھڑے ہو کر کہنا سنت ہے] شامی میں ہے: ’’(قولہ: في مکان عال) في القنیۃ: ویسن الأذان في موضع عال، والإقامۃ علیٰ الأرض‘‘[3] انتھی۔ اور اسی (۱/ ۳۶۰) میں دوسری جگہ لکھا ہے: ’’ولم تکن في زمنہ صلی اللّٰه علیہ وسلم مئذنۃ۔ بحر۔ قلت: وفي شرح الشیخ إسماعیل عن الأوائل للسیوطي أن أول من رقي منارۃ مصر للأذان شرحبیل بن عامر المرادي، وبنیٰ مسلمۃ المنائر للأذان بأمر معاویۃ، ولم تکن قبل ذلک، وقال ابن سعد بالسند إلی أم زید بن ثابت: کان بیتي أطول بیت حول المسجد، فکان بلال یؤذن فوقہ من أول ما أذن إلی أن بنی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم مسجدہ، فکان یؤذن بعد علی ظھر المسجد، وقد رفع لہ شيء فوق ظھرہ‘‘ اھ۔
[1] حاشیۃ رد المحتار (۱/ ۴۱۳) [2] الدر المختار (۱/ ۳۸۴) [3] رد المحتار (۱/ ۳۸۴)