کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 126
اراضیات بھی، یعنی کھیت بھوگ بندہک لکھا ہے۔ ما ورا اس کے ان کے داماد صاحب نے بوجہ تعصب و نکالنے بغض قلبی سنیوں سے کیا، شگوفہ کہ زمین حجرہ و صحن مسجد ہمارے خسر کی ہے، لوگوں سے کہنے لگا کہ حاجی پر جوٹ سالانہ اسٹامپ لکھ دے اور سال بسال ادا کیا کرے، ورنہ زمین صحن و زمین حجرہ گروا کر لے لوں گا، حتی کہ حاجی سے نوبت گفت و شنود کی آئی۔ حاجی نے کہا کہ خدا خانہ ہے، میرا گھر نہیں ہے، دوسرے نہ تمھاری زمین و نہ خسر کی تمھاری زمین کہتے کیا ہو۔ بالفرض اگر زمین آپ کی تھی تو وقت بننے کے دو روپیہ چندہ اور پتھر وغیرہ سے مدد دیا تو گویا ان کی رضا مندی سے حجرہ اور چہار دیواری وغیرہ بنوائی گئی، پھر اب دعویٰ آپ کا لغو ہے، اس بات پر ان کے خسر صاحب جو اپنے کو سنت جماعت کہتے ہیں ، اپنے داماد کی تائید و حمایت کر کے صحن مسجد و حجرہ گرا کر زمین لینے کا دعویٰ عدالت دیوانی میں کر دیا ہے، باوجود اس کے کہ ان کی بیٹی کا انتقال بھی عرصہ پانچ چھ برس کا ہوا ہوگیا، مگر وہ اس کو اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں اور ہر ایک امر میں اس کا کہنا مقدم اور نیک جانتے ہیں ۔ ایسی حالت میں شہر کے مسلمانوں کو چندہ دینا و مدد کرنا حجرہ و صحن بچانے کے واسطے واجب ہے یا نہیں اور وہ شخص شرع شریف کے بموجب ظالم ٹھہرے گا یا نہیں اور نکاح ان کی لڑکی مومنہ صالحہ کا ساتھ فاسق و قاسط کے موافق فتاویٰ مذہبِ اہل سنت و جماعت کے شرعاً درست ہوا یا نہیں ؟ جواب: جب صحن متنازع فیہ اندر حدود اراضی مسجد واقع ہے تو وہ بھی شمولِ مسجد داخل وقف ہے، جس میں کسی شخص کو ملکیت کا حق حاصل نہیں ہے اور جملہ مسلمانان کا حق اس میں یکساں اور برابر ہے۔ حجرہ بھی جب مسلمانوں کے چندہ و رضا مندی سے اندر حدود اراضی مسجد کے تعمیر ہوا ہے تو حجرے میں بھی ان تمام مسلمانوں کا حق ثابت ہے تو اب بلا رضا مندی جو شخص صحن مسجد مذکور کی نسبت ملکیت کا دعویٰ کرے یا حجرہ مذکورہ کو بلا رضا مندی ان تمام مسلمانوں کے گرائے یا گرانے کی کوشش کرے، وہ شخص شرع شریف کی رو سے بے شبہہ ظالم ہے، اس شخص کے مقابلے میں صحن و حجرہ کے بچانے کے واسطے مسلمانوں کو چندہ دینا اور مدد کرنا واجب ہے۔ فتاویٰ عالمگیری (۲/ ۵۵۰ چھاپہ ہو گلی) میں لکھا ہے: "رجل أعطیٰ درھما في عمارۃ المسجد أو نفقۃ المسجد أو لمصالح المسجد صح، لأنہ وإن کان لا یمکن تصحیحہ تملیکا بالھبۃ للمسجد فإثبات الملک للمسجد علیٰ ھذا الوجہ صحیح، فیتم بالقبض، کذا في الواقعات الحسامیۃ" اھ [ایک شخص نے مسجد کی تعمیر یا مسجد کے اخراجات یا مسجد کی ضرورت اور فائدے کے لیے ایک درہم دیا تو وہ درست ہے، کیونکہ اگرچہ مسجد کو ہبہ کر کے اس کی ملکیت قرار دینا درست نہیں ، لیکن اس طریقے سے مسجد کی ملکیت ثابت کرنا درست ہے، چنانچہ وہ قبضے میں لے کر پوری ہوجاتی ہے] نیز صفحہ ( ۵۵۰) میں کہا ہے: