کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 124
خالص (پکا) منافق ہے اور جس میں ان میں سے ایک خصلت ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے، حتی کہ وہ اسے ترک کر دے۔ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے، جب بات کرے جھوٹ بولے، جب عہد کرے تو عہد شکنی کرے اور جب جھگڑا کرے تو گالی گلوچ پر اتر آئے] وعن عبد اللّٰه بن عامر قال: دعتني أمي یوما، ورسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم قاعد في بیتنا، فقالت: ھا تعال أعطیک، فقال لھا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( ما أردت أن تعطیہ؟ )) قالت: أردت أن أعطیہ تمرا، فقال لھا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( أما إنک لو لم تعطیہ شیئاً، کتبت علیک کذبۃ )) (رواہ أبو داود، و البیھقي في شعب الإیمان، کذا في المشکوۃ، في باب الوعد) [1] [عبد الله بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، ایک روز میری والدہ نے مجھے بلایا، جب کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر میں تشریف فرما تھے، میری والدہ نے فرمایا: سنو! آؤ میں تمھیں کچھ دوں گی۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں فرمایا: تم نے اسے کیا دینے کا ارادہ کیا ہے؟ انھوں نے عرض کی: میں نے اسے ایک کھجور دینے کا ارادہ کیا ہے، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سن لو! اگر تم اسے کوئی چیز نہ دیتیں تو تمھارے ذمے ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا] اگر بانی مسجد اس معاہدے کی تعمیل نہ کرے تو ضرور عاصی ہوگا اور جو لوگ اس کام میں اس کا ساتھ دیں گے، وہ بھی مبتلائے عصیان ہوں گے۔ فقط۔۔ کتبہ: أبو الفیاض محمد عبد القادر الأعظم گڑھی المؤی، وارد حال مدرسہ أحمدیہ آرہ۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه ۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: محمد عبد الرحمن المبارکفوري الأعظم گڑھي۔ صح الجواب بلا ارتیاب، و اللّٰه أعلم بالصواب۔ حررہ راجي رحمۃ اللّٰه : أبو الہدیٰ سلامت اللّٰه المبارکفوري، عفا عنہ الباري مسجد کو ایک گروہ کے لیے خاص کرنا: سوال:ایک مقلد نے مسجد بنائی اور مسجد کی پیشانی پر ایک پتھر نصب کیا اور اس پر مسجد حنفیان لکھا تھا، تاکہ اس کے طریقے کے لوگوں کا استحقاق ثابت ہو اور اہلِ حدیث کا استحقاق باطل ہو۔ آیا موافق فقہ حنفی ایسا پتھر لگانا جائز و درست ہے یا نہیں ؟ جواب: موافق فقہ حنفی ایسا پتھر (جس سے مسجد کو کسی خاص گروہ کے لیے مخصوص کر دینا مقصود ہے) لگانا جائز و درست نہیں ہے۔ جب کوئی جگہ مسجد ہوجاتی ہے تو وہ جگہ بانی کی ملک سے نکل کر خالص الله تعالیٰ کے لیے ہوجاتی ہے اور اس میں عامہ مسلمین کو جو خدا تعالیٰ کے بندے ہیں ، نماز خوانی و دیگر عبادات کا، جو مساجد میں ادا کی جا سکتی ہیں ، یکساں و برابر حق حاصل ہوجاتا ہے اور کسی شخص کو (بانی ہو یا غیر بانی) اس بات کا کچھ بھی حق باقی نہیں رہتا کہ اُس حق حاصلہ میں کسی طرح کا مانع اور مزاحم ہو یا اس مسجد کو کسی خاص شخص یا گروہ کے لیے مخصوص اور دوسرے کو اس سے محروم کرے،
[1] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۴۹۹۱) شعب الإیمان (۴/ ۲۱۰) مشکاۃ المصابیح (۳/ ۵۷) نیز دیکھیں : السلسلۃ الصحیحۃ (۷۴۸)