کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 116
قبرستان کے ساتھ خالی جگہ پر مسجد تعمیر کرنا: سوال: عام قبرستانوں میں مسجد بنانے اور نیچے جو نقشہ قبرستان کا ہے، اس خالی جگہ مسجد بنانی حدیث و شرع کی کتابوں میں جائز ہے یا نہیں ؟ السائل: میر اسماعیل بخاری۔ چھاؤنی بنگلور، قاضی محلہ (۵ ؍رجب المرجب ۱۳۱۱ھ) جواب: حدیث شریف میں اسی قدر ثابت ہوتا ہے کہ قبروں کو مسجد بنانا یا قبروں پر مسجد بنانا جائز نہیں ہے۔[1]اسی طرح قبر کی طرف نماز پڑھنا، یعنی نمازی کے آگے قبر ہو اور نمازی اور قبر کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو، یہ بھی جائز نہیں ہے۔[2] اسی طرح قبرستان میں نماز پڑھنا بھی ناجائز ہے۔[3] نقشہ قبرستان مندرجہ استفتا میں جو خالی جگہ ہے، جس میں قبر نہیں ہے، اس جگہ مسجد بنانے کی ناجوازی حدیث شریف میں ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ جب وہ جگہ قبر سے خالی ہے اور قبروں سے علیحدہ واقع ہوئی ہے تو اس جگہ مسجد بنانے پر نہ یہ صادق آیا کہ قبر کو مسجد بنایا اور نہ یہ صادق آیا کہ قبر پر مسجد بنائی اور نہ اس جگہ مسجد بنا کر اس میں نماز پڑھنے پر یہ صادق آیا کہ قبر کی طرف نماز پڑھی اور نہ یہ صادق آیا کہ قبرستان میں نماز پڑھی، کیونکہ وہ جگہ قبرستان سے علیحدہ واقع ہوئی ہے، بہر کیف اس جگہ مسجد بنانے کی ناجوازی حدیث شریف سے ثابت نہیں ہوتی۔ الفاظ حدیث کے یہ ہیں : عن عائشۃ أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم قال: (( لعن اللّٰه الیھود والنصاریٰ، اتخذوا قبور أنبیاء ھم مساجد )) (متفق علیہ) [4] [عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ الله یہود و نصاریٰ پر لعنت فرمائے، انھوں نے اپنے انبیاسوال: کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا] وعن جندب قال: سمعت النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم یقول: (( ألا وإن من کان قبلکم کانوا یتخذون قبور أنبیاء ھم وصالحیہم مساجد، ألا فلا تتخذوا القبور مساجد، إني أنھاکم عن ذلک )) [5] (رواہ مسلم) [جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’سن لو! تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاسوال: اور اپنے صالح افراد کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا کرتے تھے۔ خبردار! تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا، بے شک میں تمھیں اس سے منع کرتا ہوں ]
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۴۲۵) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۵۳۱) [2] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۹۷۲) [3] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۴۹۲) نیز دیکھیں : إرواء الغلیل (۱/ ۳۲۰) [4] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۴۴۴۳) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۵۴۸) [5] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۵۳۲)