کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 114
کر، یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ بات میں مشغول ہوجائیں ] وقال تعالیٰ:﴿قَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ یُکْفَرُ بِھَا وَ یُسْتَھْزَاُ بِھَافَلَا تَقْعُدُوْا مَعَھُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖٓ اِنَّکُمْ اِذًا مِّثْلُھُمْ﴾ [النساء: ۱۴۰] [اور بلاشبہ اس نے تم پر کتاب میں نازل فرمایا ہے کہ جب تم الله کی آیات کو سنو کہ ان کے ساتھ کفر کیا جاتا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے تو ان کے ساتھ مت بیٹھو، یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور بات میں مشغول ہوجائیں ۔ بے شک تم بھی اس وقت ان جیسے ہو] وقال تعالیٰ:﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ﴾ [المائدۃ: ۲] [اور نیکی اور تقوے پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو] وقال تعالیٰ:﴿وَ ارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ[البقرۃ: ۴۳] [اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو] صحیح بخاری ’’باب إمامۃ المفتون والمبتدع‘‘ (۳/ ۳۸۸) میں ہے: "وقال الحسن: صل، وعلیہ بدعتہ۔ قال أبو عبد اللّٰه : وقال لنا محمد بن یوسف: حدثنا الأوزاعي قال:حدثنا الزھري عن حمید بن عبد الرحمن عن عبید اللّٰه بن عدي بن الخیار أنہ دخل علی عثمان بن عفان ( رضی اللّٰه عنہ ) وھو محصور، فقال: إنک إمام عامۃ، ونزل بک ما تریٰ، ویصلي لنا إمام فتنۃ، ونتحرج؟ فقال: الصلاۃ أحسن ما یعمل الناس، فإذا أحسن الناس فأحسن معھم، وإذا أساؤا فاجتنب إساء۔تھم، وقال الزبیدي: قال الزھري: لا نری أن یصلیٰ خلف المخنث إلا من ضرورۃ لا بد منھا"[1] و اللّٰه تعالیٰ أعلم [حسن رحمہ اللہ نے کہا کہ تم (اس کی اقتدا میں ) نماز پڑھو، اس کی بدعت اس کے ذمے ہے۔ ابو عبد الله نے کہا کہ ہمیں محمد بن یوسف نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اوزاعی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں زہری نے بیان کیا، وہ حمید بن عبد الرحمن سے اور وہ عبید الله بن عدی بن خیار سے بیان کرتے ہیں کہ وہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس اس وقت گئے، جب وہ اپنے گھر میں محصور تھے، انھوں نے کہا کہ آپ تو لوگوں کے امام ہیں اور آپ اس صورتِ حال میں گرے ہوئے ہیں ، جو آپ کے سامنے ہے، ہمیں امامِ فتنہ نماز پڑھاتا ہے، ہم اس میں حرج محسوس کرتے ہیں ؟ انھوں نے کہا کہ نماز وہ سب سے احسن کام ہے، جس پر لوگ عمل کرتے ہیں ، لہٰذا جب لوگ اچھا کام کریں تو تم بھی ان کے ساتھ اچھائی کرو اور جب وہ برا کام کریں تو ان کی برائی سے اجتناب کرو۔ زبیدی رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ زہری رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم مخنث کی اقتدا میں نماز ادا کرنا جائز نہیں سمجھتے، الا یہ کہ کوئی ایسی ضرورت ہو جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو]
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۶۳)