کتاب: مجموعہ مقالات اصول السنۃ - صفحہ 84
مکتوب بنام محدث جلیل مسدد بن مسرہد رحمہ اللہ رسالے (۱)کی اہمیت: شیخ الاسلام ہروی کو جب ارباب بدع و تعطیل نے جلا وطن کیا ،تو تمام کتابیں گھر میں چھوڑ دیں صرف امام احمد کے اس خط کو توشۂ سعا دت سمجھ کر اپنے ساتھ لیا ،حافظ ابن مندہ کا قول ہے کہ جس شخص نے اس وصیت کو پڑھا اور عمل کیا تو وہ﴿إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ ﴾ [الحجر :۴۲]کا ٹھیک ٹھیک مصداق ہے ،حافظ موصوف اپنے اکثر خطبات اسی خطبہ سے شروع کرتے تھے ۔ حافظ ابن جوزی کا قاعدہ تھا کہ اپنے اس وعظ میں جن میں خلیفہ بغداد حاضر ہوتا تھا ،اسی خطبہ سے شروع فرماتے تھے ۔ حجۃ الاسلام حافظ ابن قیم تو اس کے ایسے شیفتہ ہوئے کہ اپنی اکثر کتابوں کو اسی سے شروع کرتے ہیں ۔(۲) جب دین میں فتنوں کی وباعام ہو گئی اور قدر ،رفض،اعتزال،ارجاء اور خلق قرآن جیسے اختلافی مسائل میں عام مسلمان مبتلا ہوگئے (۳)تو امام مسدد بن مسرہد ........................................................................... (۱) اس رسالے کوامام ابن الجوزی نے مناقب امام احمد میں ذکر کیا ہے ۔[1] (۲)(تذکرہ مولانا ابوالکلام آزاد ،(ص:۱۹۳،۱۹۴) (۳) امام عبد اللہ بن مبارک نے کہا کہ بہتر فرقوں کے اصل چار فرقے ہیں اور پھر ان چار
[1] مناقب امام احمد بن حنبل : (ص: ۱۶۷۔ ۱۷۱)