کتاب: مجموعہ مقالات اصول السنۃ - صفحہ 70
[۵] امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں سے نیک آدمی کے لیے امید کے قائل ہیں اور برے پر ڈرتے ہیں [۶] اور وہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی کو اس کے اچھے عمل کی وجہ سے جنتی یاکسی برے عمل کی وجہ سے جہنمی نہیں کہتا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو جہاں چاہے وہاں (جنت یا جہنم میں ) جگہ دے ۔ [۷] اور وہ سلف کے حق کو پہچانے وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے لیے چنااور ابوبکر ، عمر، عثمان رضی اللہ عنھم کو تمام صحابہ سے مقدم کرے اور علی بن ابی طالب، طلحہ ،زبیر ،عبدالرحمن بن عوف ،سعد بن ابی وقاص،سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنھم کے حق کو پہچانے باقی تمام صحابہ پر (یعنی ان کو باقی پر مقدم کرے)بے شک یہ وہ نو جلیل القدر صحابہ ہیں جونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جبل حراء پر تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے حراء!تو ٹھہر جا تجھ پر نبی ،صدیق اور شہید ہیں ۔(۵)اور ............................................................................................. ایک طرف تم منتظر رہو ،دوسری جانب تمھارے ساتھ ہم بھی منتظر ہیں ۔‘‘ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ﴾(آل عمران:۱۷۳) ’’وہ لوگ کہ جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمہارے مقابلے میں لشکر جمع کر لیے ہیں ،تم ان سے خوف کھاؤتو اس بات نے انھیں ایمان میں اور بڑھا دیا اور کہنے لگے ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے۔‘‘ (۵)سنن ابی داود: (۴۶۴۸)،سنن الترمذی : (۳۷۵۷)،اس کی سند صحیح لغیرہ ہے تفصیل کے لیے دیکھیں الصحیحہ للالبانی : (۲/۵۵۸۔۵۶۲)