کتاب: مجموعہ مقالات اصول السنۃ - صفحہ 60
................................................................... فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ﴾ [التوبۃ: ۱۲۴] ’’اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان کو زیادہ کیا ہے، سو جو لوگ ایماندار ہیں اس سورت نے ان کے ایمان کو زیادہ کیا ہے اور خوش ہو رہے ہیں ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَعَ إِيمَانِهِمْ ﴾ [الفتح:۴] ’’وہی ہے جس نے مسلمانوں کے دلوں میں سکون ڈال دیا اور اپنے ایمان کے ساتھ اور بھی ایمان میں بڑھ جائیں ۔‘‘ نیز دیکھیں [آل عمران[آيت:۱۷۳]،الانفال[آيت:۲۴]،الکھف[آيت:۱۰۷] اور احادیث میں بھی کثرت سے دلائل ملتے ہیں مثلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایمان کی ستر سے کچھ زائد شاخیں ہیں سب سے اعلی شاخ لاالہ الا اللہ کی شہادت دینا ہے اورسب سے ادنی راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے۔‘‘[1] اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جہنم سے ہر ایسا شخص نکل جائے گا جس نے دنیا میں لاالہ الا اللہ کا اقرار کیا اور اس کے دل میں گندم کے دانے کے برابر یا رائی کے دانے کے برابر یا ذرہ کے برابر بھی ایمان ہوگا ۔‘‘[2] اور امام بخاری فرماتے ہیں کہ مختلف علاقوں کے ایک ہزار سے زیادہ علماء سے میری ملاقات ہوئی ، ان سب کا یہ عقیدہ تھا کہ ایمان قول و( فعل ) کا نام ہے اور وہ بڑھتا ہے اور کم ہوتا ہے اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں تھا ۔(امام لالکائی تک صحیح سند سے یہ ثابت ہے ۔[3]
[1] صحیح مسلم: (۳۵)،صحیح بخاری : (۹)مختصراً [2] صحیح بخاری: (۴۴)صحیح مسلم: (۱۹۳) [3] فتح الباری: (۱/۴۰۷)نیز دیکھیں ( مجموع الفتاوی ، (۷/۱۷۰۔۱۷۱)