کتاب: مجموعہ مقالات اصول السنۃ - صفحہ 51
رکھتے ہیں اور اس پر ڈرتے بھی ہیں اور اسی طرح گناہ گار پر ڈرتے ہیں اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید بھی رکھتے ہیں ۔ [۶۱] جو شخص اللہ تعالیٰ کو ایسے گناہ کی حالت میں ملے جس کے بدلے اس کے لیے جہنم واجب ہو ،وہ اپنے اس گناہ سے توبہ کرنے والا ہے اور اصرار نہیں کرنے والا تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے توبہ قبول کرتا ہے اورگناہوں کومٹادیتا ہے۔(۴۳) [۶۲]جو اللہ تعالیٰ کو اس حالت میں ملا کہ اس کو اس کے گناہ کے بدلے دنیا میں ہی حد لگا دی گئی ،تو یہ حد اس کے لیے کفارہ ہے ۔جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث آئی ہے۔ (۴۴) ......................................................................................... موجود ہے مثلا تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے بارے میں قرآن و حدیث میں بے شمار دلائل ہیں کہ وہ جنتی ہیں ہم ان کے جنتی ہونے کی گواہی دیتے ہیں اسی طرح ابولہب ،ابوجہل وغیرہما کے جہنمی ہونے کے متعلق قرآن وحدیث میں دلائل موجود ہیں اس لیے ہم بھی ان کے جہنمی ہونے کی گواہی دیتے ہیں ۔ (۴۳)اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ ﴾ (الشوری:۲۵) ’’اور وہ تو وہ ذات ہے جو اپنے بندوں کی توبہ کو قبول کرتا ہے اور ان کی برائیوں کو معاف کرتا ہے۔‘‘ (۴۴) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص گناہ کرتا ہے اور اس پر حد قائم کر دی گئی تو یہ اس کے لیے کفارہ ہے۔[1]
[1] حسن۔مسند احمد: (۵/۲۱۴)