کتاب: مجموعہ مقالات اصول السنۃ - صفحہ 50
کے ولاۃ (نگرانوں ) کے ۔اس انسان کے لیے اتنا ہی ہے کہ وہ موقع پر جتنا اپنا دفاع کر سکتا ہے کر ے اور اپنے اس دفاع کی حالت میں کسی کو قتل کرنے کا ارادہ نہ رکھے ۔
[۵۷]اگر وہ اس معرکہ میں اپنے نفس کا دفاع کرتا ہے تو یقینا اللہ تعالیٰ مقتول کو اس سے دور کرے گا ۔اور اگر یہ بذات خوددفاع کرتے کرتے قتل ہوگیا تو اس کے لیے شہادت کی امید کرتا ہوں جس طرح حدیث میں وارد ہوا ہے۔(۴۱)
[۵۸]اور تمام احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس شخص کو اس سے لڑائی کرنے کا حکم ہے نہ کہ اس کو قتل کرنے کا اور نہ اس کا پیچھا کرنے کا ۔اور اگر یہ پچھاڑ دیا جائے تو اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اس کے خلاف اس کے جانے کے بعددوبارہ تیاری کرکے حملہ کرے ۔
[۵۹] پھر کوئی اور شخص اس چور کو پکڑ لے اور وہ قیدی بن جائے تو اب اس کو ملنا یا قتل کرنا جائز نہیں ہے، اور نہ ہی خود اس پر حد لاگو کرے گا، بلکہ اس کے معاملے کو حکمران تک پہنچائے پس وہ فیصلہ کریں گے ۔
[۶۰] اورنہ ہم قبلہ والوں میں سے کسی ایک کے جنت میں لے جانے والے عمل کو دیکھ کر اس کے جنتی یا(جہنم میں لے جانے والے عمل کو دیکھ اس) جہنمی ہونے کی گواہی دیں گے (۴۲)ہم نیک کے لیے امید
......................................................................................
(۴۱)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل ہوگیا وہ شہید ہے ۔[1]
(۴۲)اس قاعدے سے وہ لوگ مستثنی ہیں جن کے متعلق گواہی قرآن و حدیث میں
[1] صحیح۔سنن ابی داود : (۴۷۷۲)