کتاب: مجموعہ مقالات اصول السنۃ - صفحہ 49
[۵۴]سلطان کو قتل کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی اس کے خلاف مسلمانوں میں سے کسی کا خروج جائز ہے،جو خروج کرے گا وہ بدعتی ہے اور سنت و سیدھے رستے کے خلاف چلنے والا ہے۔ [۵۵] چوروں اور خوارج سے لڑائی کرنا جائز ہے ،جب وہ کسی انسان کے نفس اور اس کے مال کے در پے ہوں ۔اس انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے نفس اور مال کو بچانے کی خاطر اس سے لڑائی کرے اور جس قدر طاقت رکھتا ہو ان دونوں چیزوں کا دفاع کرے ۔ [۵۶]اور اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ جب اس کو چھوڑ کر چلے جائیں یا اس سے جدا ہو جائیں تو ان کا پیچھا کرے ۔اور نہ ہی مسلمانوں میں سے کسی کے لیے جائز ہے کہ وہ ان کو تلاش کرے ۔سوائے خلیفہ اور اس ........................................................................................ کے خلاف خروج کرنا جائز نہیں ہے ۔،فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ زبر دستی اقتدار پر غلبہ حاصل کرنے والے حاکم کی اطاعت اور اس کے ساتھ مل کر دشمن سے جہاد کرنا واجب ہے ،اس کی اطاعت کرنا اس پر بغاوت کرنے سے بہتر ہے۔کیونکہ بغاوت میں لوگوں کی قتل و غارت کا زیادہ امکان ہوتا ہے اس کی دلیل حدیث مذکور اوردیگر بہت سی احادیث ہیں فقہاء نے صرف ایک ہی استثنائی صورت ذکر کی ہے اور وہ یہ کہ بادشاہ سے کسی طرح کفر کا ارتکاب ثابت ہو جائے ،ایسی صورت میں اس کی اطاعت جائز نہیں ہوگی بلکہ اگرقدرت ہوتواس کے خلاف جہاد واجب ہو جائے گا جیسا کہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔[1] فائدہ :خلیفہ سے مراد کیا ہے ؟اس کے متعلق امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس پرتمام مسلمانوں کا اتفاق ہوجائے ہرآدمی کہے کہ یہ امام (خلیفہ)ہے۔[2]
[1] فتح الباری: (۷/۱۳) [2] سوالات ابن ھانی : (۲۰۱۱)