کتاب: مجموعہ مقالات اصول السنۃ - صفحہ 48
[۵۲] سنت یہ ہے کہ آدمی ان کے ساتھ جمعہ کی دو رکعت نماز ادا کرے جس نے ان کو دہرایا وہ بدعتی ہے اور یہ عقیدہ رکھے کہ وہ مکمل ہیں اور اس کے دل میں کسی قسم کا شک نہ ہو۔ [۵۳]اور جس نے مسلمانوں کے خلفاء میں سے کسی ایک خلیفہ کے خلاف خروج کیا حالانکہ لوگوں نے اس پر اتفاق کر لیا تھا اور اس کی خلافت کا اقرار کرلیا تھا ،وہ چاہے رضامندگی یا پھر غلبے کے ساتھ خلیفہ بنا ہو۔بے شک ایسا شخص مشکل میں پڑ گیا ہے ،اس نے مسلمانوں کی نافرمانی کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی مخالفت کی ہے اگر یہ اسی حالت میں فوت ہوا تو یقینا وہ جاہلیت کی موت مرے گا ۔(۴۰) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نماز ادا کرے اور اس کو دوبارہ مت پڑھے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ اجمعین فاسق خلفاء کے پیچھے نمازیں ادا کرتے تھے اور ان کو دوبارہ نہیں پڑھتے تھے ۔جیسے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما حجاج بن یوسف کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے۔[1] بدعت کی دو قسمیں ہیں :بدعت مفسقہ اور بدعت مکفرہ ۔بدعت مفسقہ سے مرادجس میں عقیدہ کی خرابی نہیں بلکہ انسان کا ایک عمل بدعت پر مشتمل ہے ۔اور بدعت مکفرہ وہ ہوتی ہے جو انسان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دے ۔ (۴۰)امام نووی لکھتے ہیں یہ قول امیر کی اطاعت کے واجب ہونے پر دلیل ہے جو کسی اتفاق کے بغیر قہرا و جبرا اقتدار پر قابض ہو جائے ۔ حافط ابن حجر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث (جو اپنے امیر کی کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھے تو اس پر صبر کرے کیونکہ جوجماعت سے ایک بالشت علیحدہ ہوا پھر اس حال میں مر جائے تو اس کی موت جاہلیت کی ہوگی)کے تحت لکھتے ہیں کہ ابن بطال فرماتے ہیں یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ بادشاہ خواہ ظالم ہی کیوں نہ ہو اس
[1] شرح العقیدۃ الطحاویۃ ، (ص:۳۲۳)