کتاب: مجموعہ مقالات اصول السنۃ - صفحہ 47
[۴۸]اور جو شخص ان پر تلوار کے ساتھ غلبہ پا لیتا ہے یہاں تک کہ وہ زبردستی خلفیہ بن بیٹھتا ہے اس کا نام امیر المومنین رکھا جائے گا۔(۳۸) [۴۹] اور امراء کے ساتھ چاہے وہ نیک ہوں یا بد ۔غزوات قیامت تک جاری رہیں گے اس کو چھوڑا نہیں جائے گا ۔مال فی کو تقسیم کرنا اورائمہ کا حدود کو نافذ کرنا ہمیشہ جاری رہے گا ۔کسی کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ان پر طعن و تشنیع کرے اور ان سے جھگڑا مول لے اور ا ن کی طرف صدقات کو لوٹانا جائز ہے۔ [۵۰] اور جس شخص نے اپنے صدقات خلیفہ کی طرف لوٹا دیے وہ نیک ہو یا گناہ گار اس کافریضہ ادا ہو گیا ہے ۔ [۵۱] امیر اور اس کے مقرر کردہ والی کے پیچھے نماز جمعہ ادا کرنا جائز ہے اوروہ پوری دو رکعت ہیں ۔اور جو شخص یہ نماز دہرائے گاوہ بدعتی اور سنت کی مخالفت کرنے والا ہے۔جب وہ امراء اور خلیفہ کے پیچھے نماز کو جائز نہ سمجھتا ہو ۔چاہے وہ نیک ہوں یا بد ہوں اس کے لیے جمعہ کی فضیلت میں سے کچھ بھی نہیں ہے۔(۳۹) ............................................................................................ اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اطاعت معروف میں ہے (یعنی نیکی کے کاموں میں )۔ [1] (۳۸)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص بزور طاقت حقیقی اقتدار پرغلبہ حاصل کر لے توفتنہ کی آگ بجھانے کے لیے اس کی اطاعت واجب ہوجائے گی بشرط یہ کہ وہ کسی نافرمانی کا حکم نہ دے۔[2] (۳۹)امام ابن ابی العز نے کہا کہ جس انسان نے گناہ گار امام کے پیچھے جمعہ یا جماعت کو چھوڑ دیا وہ اکثر علماء کے نزدیک بدعتی ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ وہ اس کے پیچھے
[1] صحیح بخاری: (۷۱۴۵،صحیح مسلم: (۱۸۴۰) [2] فتح الباری: (۱۳/۱۲۲)