کتاب: مجموعہ مقالات اصول السنۃ - صفحہ 37
[۲۳] اور تو اس مسئلہ میں بدعت ایجاد کرنے والوں سے مناظرہ سے بچ اور اس نے باللفظ وغیرہ کہا۔(یعنی یہ کہنا بھی درست نہیں ) [۲۴] اور جس شخص نے اس میں توقف کیا پس وہ کہتا ہے کہ مجھے نہیں پتا کہ وہ مخلوق ہے یا غیر مخلوق اور حالانکہ وہ کلام اللہ ہے ،وہ آدمی صاحب بدعت ہے اس کی طرح جس نے اس (قرآن)کو مخلوق کہا ہے اور یقینا وہ توکلام اللہ ہے اور مخلوق نہیں ہے۔(۱۳) [۲۵]اور قیامت کے دن رویت (باری تعالیٰ )پر ایمان لانا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح احادیث میں مروی ہے۔ [۲۶] اور یقینا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے اور یہ بات اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح منقول ہے (۱۴) ...................................................................................... (۱۳)امام ابن تیمیہ نے کہا کہ یہ بات مسلمہ اصول میں سے ہے اور سلف ان لوگوں کو جو اس میں اختلاف کرتے ہیں بری نظر سے دیکھتے ہیں ۔[1] (۱۴)نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے رب تعالیٰ کو دیکھنے میں سلف کا اختلاف ہے سیدہ عائشہ اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنھما اس کو نہیں مانتے اور سیدنا ابن عباس اس کا اثبات کرتے ہیں ۔راجح بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے۔[2] حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کچھ روایات مطلقا آئی ہیں اور کچھ مقید تو مطلق کو مقید پر محمول کیا جائے گااوراس کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دل کے ساتھ دیکھا ہے اور س مسئلہ میں راجح بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
[1] مجموع الفتاوی :۲/۴۶۹)تفصیل کے لیے دیکھیں (الشریعۃ،( ص:۲۵۴۔۲۷۵)،السنۃ : (۱/۱۸۱)،الصفات،(ص:۱۰۹۔۱۱۱) [2] مسند احمد( ۵/۲۴۳)،سنن الترمذی: (۳۲۳۵)وقال :حسن صحیح )