کتاب: مجموعہ مقالات اصول السنۃ - صفحہ 35
تفسیر کو نہیں جانتا اور نہ اس تفسیر تک اس کی عقل کی رسائی ہے ، اس کے لیے اس پر صرف اور صرف ایمان لانا ہے اور اس کو تسلیم کرنا ہی کافی ہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے(۸)اور جو اس طرح کی تقدیر کے بارے میں احادیث ہیں ۔ [۱۷] او رتمام احادیث رویت بھی اسی طرح ہیں (۹)اگرچہ وہ کانوں سے بالا تر ہوں اور سننے والا ان س مانوس نہ ہو۔ [۱۸] پس یقینا ان احادیث پر ایمان لاناواجب ہے اور یہ کہ ان میں سے ایک حرف بھی رد نہ کرے۔ [۱۹] اور نہ ہی ان کے علاوہ دوسری احادیث رد کرے جو ثقہ راویوں نے بیان کی ہیں اور نہ ہی کسی سے جھگڑا کرے، نہ مناظرہ کرے، اور نہ ................................................................................................ (۸)سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بے شک تم میں سے کسی ایک کی پیدائش کے وقت اسے چالیس دن تک ماں کے پیٹ میں رکھا جاتا ہے پھر چالیس دن بعد نطفہ بن جاتا ہے ......الخ۔[1] (۹)تمام مومنین کا اپنے رب کو قیامت کے دن اپنے سامنے دیکھنا ۔یہ عقیدہ کتاب و سنت سے ثابت ہے اور امت نے اس کو تلقی بالقبول کے ساتھ لیا ہے۔ بعض گمراہ لوگوں نے اس کا انکار کیا ہے جیسے خوارج اور جھمیہ وغیرہ۔[2]
[1] مفصل حدیث دیکھیں:(صحیح البخاری:(۳۲۰۸)،صحیح مسلم : (۲۶۴۳)،الشریعۃ(ص۱۸۲)،شرح اصول الاعقاد:(۱۰۴۰۔۱۰۴۲) ، کتاب الاسماء والصفا:(۲/۱۲۷۔۱۲۸)،الاعتقاد (ص:۱۳)،تاریخ بغداد:(۹/۶۰)،الرد علی الجہمیۃ(ص:۱۲۹)،التوحید لابن مندہ: (۸۲۔۹۲)، شرح السنۃ للغوی: (۱/۱۲۸) [2] اس پر تفصیلی بحث ہم نے اپنی دوقیمتی کتب :شرح رسالہ نجاتیہ اور شرح اصول السنۃ للحمیدی میں کر دی ہے ۔