کتاب: مجموعہ مقالات اصول السنۃ - صفحہ 34
[۱۱] اورنہ ہی عقل اور خواہشات کے ذریعے اس کا ادراک کیا جاسکتا ہے۔ [۱۲] بے شک وہ تو پیروی کرنا اور خواہش کو چھوڑنا ہے۔ [۱۳] اورسنت لازمہ سے ہے کہ جس نے سنت کا ایک حصہ بھی چھوڑا اس سے سنت کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ حالانکہ وہ اس پر ایمان رکھتا ہے وہ صاحبِ سنت نہیں کہلائے گا ۔(۶) [۱۴] اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لانا [۱۵] اور اس میں وارد تمام احادیث کی تصدیق کرنا اور ان پر ایمان لانا ضروری ہے ۔ (۷) [۱۶] تقدیر کے بارے میں کیوں اور کیسے جیسے الفاظ نہیں بولے جائیں گے بے شک وہ تو تصدیق اور اس پر ایمان لانا ہے ۔اور جو شخص حدیث کی ............................................................................. (۶)امام احمد رحمہ اللہ نے کہا کہ ’’صاحب الحدیث عندنا من یستعمل الحدیث ‘‘ہمارے نزدیک اہل حدیث وہ ہے جو حدیث پر عمل کرتا ہے ۔[1] (۷)تما م اہل علم کاتقدیر کے برحق ہونے پر اتفاق ہے اور تقدیر اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے ساتھ ہے اور کوئی چیز بھی اس کے ارادے اور مشیئت کے بغیر واقع نہیں ہوتی۔ تقدیر کا انکار کرنا بدعت اور کبیرہ گناہ ہے ۔ سب سے پہلے تقدیر کا انکار معبدالجھنی نے کیا پھر اس کے بعد معتزلہ میں سے کچھ لوگوں نے انکار کیا جو قدریہ کے نام سے مشہور ہیں ۔[2]
[1] مناقب الامام احمد لابن الجوزی ، (ص۲۰۸) [2] تفصیل کے لیے دیکھیے( شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ للالکائی: (۳/۵۳۴) ،الاعتقاد للبیھقی،(ص:۱۳۲،الشریعہ للآجری (ص:۱۴۹۔۱۶۸) ،صریح السنۃ للطبری،( ص:۳۴)،نیز دیکھیں شرح رسالہ نجاتیہ ط:سلفی ریسرچ انسٹیٹیوٹ)اسی موضوع پرامام احمدکے بعض اقوال کے لیے دیکھیں:منا قب الامام احمد ،(ص:۱۶۹)