کتاب: مجموعہ مقالات اصول السنۃ - صفحہ 107
حدیث بیان نہ کرو ،اس پر انہوں نے کہا :اچھا قرآن کی ایک آیت آپ کو سنانا چاہتے ہیں ،آپ نے اس سے بھی انکار کر دیا اور کہا کہ تم لوگ میرے سامنے سے اٹھ جاؤ ،ورنہ میں خود چلاجاؤں گا ،یہ سن کر وہ دونوں چلے گئے ،حاضرین درس میں سے ایک شخص نے امام ابن سیرین سے تعجب کرتے ہوئے سوال کیا کہ ابوبکر !آپ کے سامنے قرآن کی آیت پڑھنے میں کیا حرج تھا؟ آپ نے فرمایا کہ مجھے خوف تھا کہ یہ دونوں کوئی آیت محرف کرکے پڑھ دیں گے اور وہ آیت اسی طرح میرے دل میں جم جائے گی ۔(۱۸) ایوب سختیانی رحمہ اللہ سے ایک بدعتی نے کہا کہ ابوبکر !میں آپ سے ایک مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں ،یہ سن کر آپ نے اپنا منہ موڑ لیا اور فرمایا: "لا ولا نصف کلمہ"نہیں نہیں آدھی بات بھی نہیں کرسکتے ہو۔(۱۹) امام ابن طاؤس نے ایک بار اپنے صاحبزادے کو ایک بدعتی سے کلام کرتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ بیٹے !اپنی انگلی اپنے کان میں ٹھونس لو ،تا کہ اس کی بات نہ سن سکو،خوب ٹھونس لو ،خوب ٹھونس لو۔(۲۰) عمر بن عبدالعزیز کا قول ہے کہ جو آدمی اپنے دین کو جھگڑوں کا نشانا بناتا ہے ،بہت زیادہ غلطیاں کرتا ہے ۔(۲۱) ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ قوم کے خزانۂ علم و دیانت میں کوئی ..................................................................................................... (۱۸)سیر اعلام النبلاء: (۱۱ /۲۸۵)،شرح اصول الاعتقاد( رقم:۲۴۲) (۱۹)سیر اعلام النبلاء: (۱۱ /۲۸۵)،فتح القدیر للشوکانی: (۲/۱۲۸) (۲۰)سیر اعلام النبلاء : (۱۱ /۲۸۵) (۲۱) سنن الدارمی: (۱/۱۰۲)ایک آدمی نے عمر بن عبدالعزیز کو خط لکھا اور تقدیر کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے جواب میں لکھا:أما بعد :میں تمہیں اللہ کے تقوی کے معاملہ میں اعتدال کی راہ اپنانے ،اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے بعد جو کچھ بدعتیوں نے ایجاد کر رکھا ہے اسے ترک کرنے کی