کتاب: مجموعہ مقالات اصول السنۃ - صفحہ 104
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ ایک بار سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں کہیں سے ایک آدمی آیا،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس سے وہاں کے عام مسلمانوں کے حالات دریافت کرنے لگے ،اس نے جواب دیا کہ ’’عوام میں سے فلاں فلاں نے قرآن پڑھ لیا ہے ‘‘۔ جب میں نے یہ با ت سنی تو کہا کہ آج کل قرآن کے بارے میں لوگوں میں یہ تیز رفتاری مجھے پسند نہیں ہے۔یہ جملہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے ہاتھ سے روکا اور فرمایا کہ خاموش رہو ۔خلیفۃ المسلمین کے اس رویہ سے مجھے دلی رنج ہوا ،اور اپنے مکان پر چلا آیا ،تھوڑی دیر کے بعد ایک شخص نے آکر کہا کہ امیرالمومنین کو لبیک کہیے۔میں سنتے ہی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ،دیکھا آپ اپنے دروازے پر کھڑے میرا انتظار کر رہے ہیں ،مجھے دیکھتے ہی ہاتھ پکڑ کر گھر میں لے گئے اور فرمایا :’’اس شخص کی بات کو آپ نے کیوں برا مانا ۔‘‘میں نے کہا کہ میری ناپسندیدگی کی وجہ یہ ہے کہ جب لو گ اس تیزی کے ساتھ قرآن کی تعلیم حاصل کریں گے تو آپس میں مسابقت کی شکل پیدا ہو گی،جس سے باہمی اختلاف رونما ہوگا اور لڑائی جھگڑے کے سلسلہ میں نزاع و مراء اور نمائش کی سخت وعید آئی ہے ،اس لیے میں نے یہ بات نا پسند کی ورنہ نفس قرآن کی تعلیم تو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے ۔یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما کی بڑی تعریف و تحسین کی اور اظہار تاسف کرتے ہوئے فرمایا کہ کاش !کہ میں اس شخص کی بات کو عوام سے پوشیدہ رکھتا اور جب آپ بھی مجمع میں تشریف فرما ہوتے تو لوگوں سے بیان کرتا۔(۸) ............................................................ (۸)سیر اعلام النبلاء :(۱۱ /۲۸۳)