کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 94
13۔سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ مسموعاً و مرفوعاً بیان کرتے ہیں : ((لَوْ جُعِلَ الْقُرْآنُ فِيْ إھَابٍ ثُمَّ اُلْقِيَ فِيْ النَّارِ مَا احْتَرَقَ)) [1] (رواہ الدارمي) [اگر قرآن کو چمڑے میں رکھ کر آگ میں ڈال دیا جائے تو وہ نہیں جلے گا] لمعات میں کہا ہے کہ یہ خبر شرفِ قرآن میں مبالغے کے لیے بر سبیلِ فرض و تقدیر کے ہے،یعنی قرآن مجید کی ایسی شان عظیم ہے،جیسے قرآن میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿لَوْ اَنْزَلْنَا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہ﴾ [الحشر: ۲۱] [اگر ہم اس کو کسی پہاڑ پر اتارتے تو یقینا تو اسے اللہ کے ڈر سے پست ہونے والا،ٹکڑے ٹکڑے ہونے والا دیکھتا] یا اس میں آگ سے مراد وہ آگ ہے جو حق و باطل کے درمیان امتیاز کرتی ہے۔یا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک معجزہ تھا،یا اس کا یہ مطلب ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ قرآن سکھاتا ہے،پھر اس کو آخرت کی آگ نہ جلائے گی۔انتھیٰ۔ حفظِ قرآن کی فضیلت: حافظِ قرآن کی خاص فضیلت کے بارے میں علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا ہے: 1۔((مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَاسْتَظْھَرَہٗ فَأَحَلَّ حَلَالَہٗ وَحَرَّمَ حَرَامَہٗ،أَدْخَلَہُ الْجَنَّۃَ،وَشَفَّعَہٗ فِيْ عَشْرَۃٍ مِنْ أَہْلِ بَیْتِہِ،قَدْ وَجَبَتْ لَھُمُ النَّارُ)) [2] (رواہ أحمد والترمذي وابن ماجہ والدارمي،وقال الترمذي: ھٰذا حدیث غریب،و حفص بن سلیمان الراوي لیس ہو بالقوي،یضعف في الحدیث) [جس نے قرآن پڑھا،اسے یاد کیا اور اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام جانا تو اللہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا اور اس کے اہلِ خانہ کے ان دس افراد کے بارے
[1] سنن الدارمي (۲/۵۲۲) السلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ،رقم الحدیث (۳۵۶۲) [2] مسند أحمد (۱/۱۴۸) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۲۹۰۵) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (۲۱۶) سنن الدارمي (۲/۴۳۰) اس کی سند میں’’حفص بن سلیمان‘‘ راوی متروک ہے اور’’کثیر بن زاذان‘‘ مجہول ہے،لہٰذا یہ روایت سخت ضعیف ہے۔