کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 92
((یُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ: اِقْرأْ وَارْتَقِ،وَرَتِّلِ کَمَا کُنْتَ تُرَتِّلُ فِيْ الدُّنْیَا،فَإِنَّ مَنْزِلَکَ عِنْدَ آخِرِ آیَۃٍ تَقْرَأُھَا)) [1] (رواہ أحمد والترمذي وأبوداؤد والنسائي) [صاحبِ (حامل و عاملِ) قرآن سے کہا جائے گا: پڑھتا جا اور چڑھتا جا اور ویسے ہی ترتیل سے پڑھ جیسے تو دنیا میں ترتیل کے ساتھ پڑھا کرتا تھا اور جہاں تو آخری آیت پڑھے گا،وہیں تیری منزل ہو گی] پہلے یہ بات گزر چکی ہے کہ مشہور قول کے مطابق قرآن مجید کی کل چھے ہزار چھے سو چھیاسٹھ (۶۶۶۶) آیات ہیں۔اس جگہ سے قاری کے درجات کی بلندی کو آیات کی تعداد کے ساتھ قیاس کر لینا چاہیے۔وللّٰہ الحمد۔لیکن حدیث کے ظاہر سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ یہ مرتبہ حافظ کو ملے گا اور اگر قاری کو بھی ملے تو کیا بعید ہے،کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت محدود نہیں ہوتی ہے۔بہت سے علما ان مجرد حفاظ سے افضل ہیں،جن کو قرآن کا علم نہیں ہے۔واللّٰہ أعلم۔ امام خطابی رحمہ اللہ نے کہا ہے: ’’جاء في الأثر أن عدد آي القرآن علیٰ قدر درج الجنۃ،فیقال للقاریٔ: ارق في الدرج علیٰ قدر ما کنت تقرأ من آي القرآن،فمن استوفیٰ قراء ۃ جمیع القرآن استولیٰ علیٰ أقصیٰ درج الجنۃ في الآخرۃ،ومن قرأ جزء ا منہ کان رقیہ في الدرج علی قدر ذٰلک،فیکون منتھیٰ الثواب عند منتھیٰ القراء ۃ‘‘[2] انتھی (ذکرہ المنذري في الترغیب والترہیب) [ایک اثر (حدیث) میں یہ بیان ہوا ہے کہ قرآن مجید کی آیات کی تعداد جنت کے درجات کے برابر ہے۔قاریِ قرآن سے کہا جائے گا کہ جتنی آیاتِ قرآن تو پڑھا کرتا تھا،اتنے درجات تو جنت پر چڑھ جا۔جس نے سارے قرآن کی قراء ت مکمل کی تو وہ آخرت میں جنت کے آخری درجے تک پہنچ جائے گا۔جس نے قرآن مجید کا ایک پارہ پڑھا تو وہ اسی کے برابر جنت کے درجات پر چڑھے گا۔جہاں اس کی قراء ت ختم ہوگی،وہاں اس کا
[1] مسند أحمد (۲/۱۹۲) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۲۹۱۴) سنن أبي داؤد،رقم الحدیث (۱۴۶۴) سنن النسائي الکبریٰ (۵/۲۲) [2] الترغیب والترہیب للمنذري (۲/۲۲۸)