کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 896
بعض اشخاص نے حسبِ استبداد سات آسمانوں اور سات زمینوں کے بارے میں فتوٰی لکھا تھا اور اسے مطبع اسدی میں دیگر متداول فتاوٰی کا ضمیمہ بنا دیا اور اس جیسے فتوے کے وجود کی یوں خاتم الانبیاکی طرح نفی کی۔جب کہ اس مسئلے میں حق یہ ہے کہ قدرتِ الہٰی کے عموم و شمول کے پیشِ نظر ملائکہ،مقربین اور انبیاے مرسلین آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کے امثال کے وجود کا امکان موجود ہے۔اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظیر اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق کہ اس نے سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو خاتم النبیین قرار دیا ہے،خارج میں غیر مرجو ہے۔زمین کے سات طبقے ہونا اور ان طبقات میں خلقت کا نہ ہونا ایک مسئلہ ہے اور خاتم الانبیاء کے اوصافِ کمالیہ میں مثلیت کے امکان کی نفی ایک دوسرا مسئلہ ہے۔
غرض کہ اہلِ حق اور اربابِ علم کامل کو،معاصرت اصلِ منافرت کے پیشِ نظر،مفتریوں کے جھوٹ سے،جھوٹوں کے افتراء سے،جاہلوں کے طعن سے،مبتدعین کے انتحال سے اور باطل پرستوں کے طعن و تشنیع سے کبھی چھٹکارا ملا ہے نہ ملے گا،حتیٰ کہ قیامت قائم ہو جائے اور ہر اہلِ عقیدۂ فاسد اور اہلِ عملِ کاسد تمام اقوال و افعال کی جزا کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھ لے گا اور یہ معلوم کر لے گا کہ حق پر کون تھا اور باطل پر کون تھا۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنقَلَبٍ یَّنقَلِبُوْنَ﴾ [الشعراء: ۲۲۷]
[عنقریب وہ لوگ جنھوں نے ظلم کیا،جان لیں گے کہ وہ لوٹنے کی کونسی جگہ لوٹ کا جائیں گے]
ستعلم لیلیٰ أي دین تداینت وأي غریم في التقاضي غریمھا
[لیلیٰ جلد ہی جان لے گی کہ اس نے کس قسم کے قرض کا لین دین کیا ہے اور اس سے
قرض کا تقاضا کرنے والا کس قسم کا قرض خواہ ہے]
آمدم بر سر مطلب! منشی احمد علی احمد رحمہ اللہ نے اس رسالے’’إکسیر في أصول التفسیر‘‘ کے ختمِ طبع کی تاریخ کیا لکھی ہے،موتی پروئے ہیں۔یہاں خاتمے کے اختتام پر اس کا ذکر کرنا مجھے بھلا معلوم ہوا۔
پاکیزہ سخن از من مسکین بشنو نادر گہری دارم و از من بہ پذیر