کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 886
فرمائے گا اور درکاتِ جحیم،عذابِ نار،عرصۂ قیامت کے تبعاث،اہوالِ ساعت اور شدائدِ مواقف سے رہائی بخشے گا۔وما ذٰلک علی اللّٰہ بعزیز۔ وہ بندے کو اس دار فانی سے اپنی مرضی کے مطابق ایمان صحیح اور اسلامِ صریح کے ساتھ عالم جاودانی کی طرف لے جائے۔عالمِ برزخ میں منکر و نکیر کے سوال و جواب اور وہاں کے دیگر حالات میں استقامت و ثبات مرحمت فرمائے اور میرے ان ضعیف و ناتواں بیٹوں کو جو بندوں میں سے کم ترین اور رسولِ انس و جان صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکاروں میں شامل ہیں،زمانوں کے ہر الٹ پھیر،آفات و حوادثِ دوراں اور دواہیِ جہان سے محفوظ رکھے اور اپنے شامل لطف و کرم کے ساتھ ان کو محفوظ کرے۔ان کو علمِ نافع،عملِ صالح،اتباعِ سنت اور بدعت سے اجتناب کی توفیق بخشے۔ان کے طین و دین کے خمیر میں جو انتسابِ نبوت ہے،اس کو نسل کی بقا تک،جس کی انتہائی مدت کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا،ہر طبقے میں اسے ان سے جدا نہ کرے۔وہ یسر و عسر اور دنیا فانی کی زیب و زینت کو ان کی رسم و طبع کا حجاب نہ بنائے۔ اب جب کہ بندہ اپنی حیاتِ عمر اور عمرِ فانی کی پانچویں دہائی میں قدم رکھ چکا ہے،باقی ماندہ زندگی اگر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور اس کے احسانات پر مدح سرائی کرتے ہوئے اور یہ بے اساس انفاس اگر اس کے کلامِ قدیم اور کتابِ حکیم کے مطالعہ میں بسر ہو جائے تو زہے سعادت! تفسیر’’فتح البیان في مقاصد القرآن‘‘ کا مسودہ جو اس ہیچ مداں کی افضل و احسن تالیف ہے،۱۲۸۹ھ؁ کے اواخر میں آٹھ ماہ کی مدت کے اندر تیار ہوا۔اس پر بہت زیادہ محنت اور جدوجہد ہوئی اور ۱۲۹۰؁ھ کے اوائل میں اس پر نظر ثانی کی اور محو و اثبات کی نوبت آئی۔اس تفسیر کی تکمیل کی ساری مدت ایک سال سے زیادہ نہیں ہے۔اس قلیل مدت میں اس عمل جلیل اور امر جمیل کا سرانجام ہونا محض لطفِ الٰہی ہی سے ممکن ہے۔میں اس بات کا امید وار ہوں کہ اس حقیر سی خدمت کی برکت سے آخرت کی بخشش کے لائق بن جاؤں اور جب تک اس بدن خاکی میں روح باقی ہے،جس کی مقدار اللہ ہی جانتا ہے،میں اس کی توفیق سے طاعات،مبرات اور حسنات میں،جو باقیات صالحات ہیں،مگن رہوں۔رب أنت ولي في الدنیا والآخرۃ توفني مسلما وألحقني بالصالحین،واجعل لي لسان صدق في الآخرین۔