کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 885
وَوَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغْنٰی﴾ تو پڑھا ہی ہو گا۔یہ آیات بعینہ میرے احوال کی تفسیر ہیں اور فرمانِ باری تعالیٰ: ﴿وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ﴾ میری گذشتہ بات کی شرح ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ سعادت کی کچھ قسمیں ہیں : ایک سعادت سعادتِ نفسانی ہے۔یہ سعادت دائمی نشاطِ قلب،انبساطِ خاطر اور عدمِ تشویشِ باطن سے عبارت ہے۔دوسری قسم کی سعادت صحتِ بدن،عافیت اور تندرستی سے ظاہر ہوتی ہے۔سعادت کی ایک قسم یہ ہے کہ اسبابِ معاش اس طر ح سے مہیا ہوں کہ بندہ تنگوں اور سختیوں سے تشویش ناک نہ ہو اور سنگیوں اور ہم جولیوں میں باعزت طریقے سے زندگی گزارے اور ایک قسم سعادت کی یہ ہے کہ بندے کی نسل اور اس کے نسب کو باقی رکھنے والی اولاد میسر ہو۔ایک سعادت یہ ہے کہ آدمی کو اتنا مال اور جاہ و حشم مہیا ہو،جس سے اس کی ظاہری عزت و عظمت وابستہ ہے۔جب بندے کو مذکورہ بالا تمام سعادتیں میسر ہونا ممکن نہ ہو تو ان میں سے جس قسم کی بھی سعادت نصیب ہو جائے،اس کو غنیمت جاننا چاہیے اور اس کو چاہیے کہ اس پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرے اور اس سعادت بخشِ حقیقی کا ممنون و احسان مند رہے۔انتھیٰ۔ الحمد للّٰہ تبارک و تعالیٰ یہ تمام سعادتیں اس بندہ حقیر میں بہ درجہ کمال موجودہیں۔چنانچہ بندے کو صالح اولاد،اموالِ حلال،جاہ و حشم و خدم،انواعِ عزت و عظمت،صحتِ بدن،ہاتھ،پاؤں،کان اور آنکھیں وغیرہ اعضا و جوارح کی تندرستی اور اس جیسی بے شمار نعمتوں اور سعادتوں کا وافر حصہ نصیب ہوا ہے۔ وَلَوْ أَنَّ لِيْ فِيْ کُلِّ مَنْبَتِ شَعْرَۃٍ لِسَاناً لَمَا اسْتَوْفَیْتُ وَاجِبَ حَمْدِہٖ [اگر میرے ہر بال پر ایک زبان ہو (اور وہ اس مالکِ ارض و سما کی تسبیح خواں ہو) پھر بھی میں اس کی واجب و لازم حمد کا پورا حق ادا نہیں کر سکتا] بندہ باری تعالیٰ کی حضرت جناب سے امید رکھتا ہے،جس کی عظمت و شان بہت بلند اور جس کی نعمتوں کا سلسلہ بہت دراز ہے کہ وہ بندے کی اس دنیاوی سعادت کو اخروی سعادت کے ساتھ ملا دے گا۔جس طرح وہ اس عارضی قیام گاہ میں اس بندۂ شرمندہ کی جملہ حاجات کا کفیل و ضامن رہا ہے،آخرت میں بھی وہ اپنی رحمت،فضل اور مغفرت کے ساتھ عواطفِ کریمانہ اور مراحمِ شاہانہ میں شامل