کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 884
کی تصانیف میں نہیں مل سکتے،لیکن دوسری طرف تعصب اور حسد کے مفاسد اور خرابیاں بھی بے شمار ہیں۔چونکہ چشمۂ فیض کسی خاص فرد میں منحصر نہیں اور افادے کا سلسلہ برابر جاری و ساری ہے،اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے امت کے بعض افراد اور ملت کے بعض اشخاص کو بعض فضائل کے ساتھ مخصوص کیا ہے۔بعض کو رتبۂ اجتہاد،بعض کو تحقیق اور بعض کو منصبِ تطبیق وغیرہ سے نوازا اور بعض کو تجدیدِ دین کے منصب پر سرفراز کیا ہے۔اس نے اپنے اس بندۂ ناچیز کو اپنے خاص لطف وکرم سے سنتِ صحیحہ کی شریعتِ حقہ کے ابواب میں تدوین کی توفیق عطا فرمائی۔معلوم نہیں کہ کسی نے خاص طور پر ملکِ ہندوستان میں اس نہجِ بدیع اور اسلوبِ لطیف پر اس کام کو سرانجام دیا ہو یا اس سے مضبوط تر بات کی ہو۔جس کسی کو اس بات میں شک و شبہہ ہو،اس سے کہہ دو کہ وہ بندے کی تالیفات کا دیگر تصنیفات کے ساتھ موزانہ کرے،اسے معلوم ہو جائے گا کہ یہ دوسری تصنیفات تمام تر جد و جہد کے باوجود اس فن کے عشرِ عشیر کو بھی نہیں پہنچ سکتی ہیں۔خاص طور پر قدماے اہلِ سنت کے عقائد کو بندے نے ازروے دلائل اور حججِ صحیحہ معقولیوں کے خس و خاشاک سے پاک کیا ہے۔ اکتسابِ علم،استحصالِ عمل اور تصحیحِ عقائد میں راقم الحروف کی روش اور طریقہ بالکل محدثین کا سا طریقہ ہے،جنھوں نے فقہ اور حدیث کو جمع کیا ہے۔بندے نے ہر ایاب و ذہاب میں سلفِ امت اور ان کے ائمہ کے طریقے کو پیشِ نظر رکھا ہے۔اہلِ سنت و جماعت کے مذاہب کی کتب کو کسی خاص مذہب کی تقیید اور مخصوص مجتہد کی تقلید کے بغیر دیکھنے کو اپنا پسندیدہ شیوہ بنایا ہے،لہٰذا جو کچھ کتاب و سنت کے موافق ہے،وہ قابلِ قبول ہے اور جو کچھ اس کے خلاف ہے،وہ لائقِ رد ہے۔وباللّٰہ التوفیق۔ اس کے بعد بندے کو ۱۲۸۵؁ھ میں فریضہ حج ادا کرنے اور زیارتِ خیرالانام صلی اللہ علیہ وسلم کی توفیق ملی۔حق سبحانہ و تعالیٰ نے محض اپنے لطف و کرم سے اس پر کامیابیوں کے دروازے کھول دیے اور اپنے بندوں کے ایک جمِ غفیر کی مصالح کا کام اس کے سپرد کر دیا۔آج کل بندہ ریاست بھوپال میں مقیم ہے اور اللہ ذوالجلال والاکرام کی لا متناہی مہربانیوں میں گھرا ہوا ہے۔لا أحصی ثناء ا علیک،أنت کما أثنیت علی نفسک۔ آپ نے قرآن مجید میں ﴿اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی * وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَھَدٰی*