کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 877
محدثین کے طریقے پر ہے،مگر اس میں غیر صحیح واقعات بھی جمع ہو گئے ہیں۔خازن رحمہ اللہ نے اس کی تلخیص کی ہے۔ 4۔ ابن برجان ابو الحکم عبدالسلام بن عبدالرحمن رحمہ اللہ مولف تفسیر’’الإرشاد‘‘ انھوں نے اپنی کتاب کو اربابِ حال کی روش پر لکھا ہے۔انھوں نے بلادِ مغرب میں مراکش میں ۵۳۱ھ؁ کو وفات پائی۔ 5۔ ابو القاسم محمد بن عمر زمخشری رحمہ اللہ۔یہ زمخشر کی طرف منسوب ہیں،جو خوارزم کے ماتحت علاقوں میں سے ایک بستی کا نام ہے۔چونکہ موصوف بیت اللہ کی مجاورت میں تھے،اس لیے انھوں نے جار اللہ کا لقب پایا۔یہ معتزلی ہے اور اس نے ۵۳۸؁ھ میں وفات پائی۔اس کی تفسیر کا تعارف اور حال اس کتاب کے’’مقصد ثانی‘‘ سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ 6۔ امام رازی،ابو عبد اللہ محمد فخر الدین رحمہ اللہ،یہ رے کی طرف منسوب ہیں۔اس میں خلافِ قیاس زاء کو زیادہ کر کے’’رازی‘‘ اسمِ نسبت بنایا گیا ہے۔رے عراقِ عجم کا ایک شہر ہے۔موصوف اپنے نسب میں صدیقی ہیں اور مذہب میں شافعی۔یہ محمد جبلی رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں،جو غزالی رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں۔انھوں نے قراء ت پر بھی چند رسائل سپرد قلم کیے ہیں۔متکلمین کے برگزیدہ عالم ہیں۔علمِ حدیث سے باخبر نہ تھے۔انھوں نے ۲۰۶ھ؁ میں وفات پائی۔ 7۔ ابو محمد روز بہان بقلی رحمہ اللہ۔یہ بقلہ کی طرف منسوب ہیں،جو بہ معنی تر کاری ہے۔تفسیر عرائس کے مولف ہیں۔انھوں نے ۶۰۶ھ؁ میں وفات پائی۔ 8۔ زاہدی،نجم الدین ابو عمر محمود رحمہ اللہ (المتوفی: ۶۵۸؁ھ) یہ اپنے اجداد میں سے ایک شخص کی طرف منسوب ہیں۔ 9۔ محمد بن ابی بکر بن شمس الدین عبدالقادر رازی رحمہ اللہ۔موصوف’’أسئلۃ القرآن وأجوبتھا‘‘ کے مولف ہیں۔لغتِ قرآن پر بھی ان کی ایک تالیف ہے۔یہ ۶۰۶ھ؁ میں فوت ہوئے۔ 10۔ بیضاوی رحمہ اللہ،صاحبِ’’أنوار التنزیل‘‘ اس کتاب کے مقصد ثانی میں ان کا تعارف تفصیل کے ساتھ گزر چکا ہے۔یہ شافعی المذہب تھے۔کہتے ہیں کہ ان کی تفسیر میں اعراب،معانی اور بیان میں سے جو کچھ ہے،وہ کشاف سے ماخوذ ہے اور اس میں جو کچھ حکمت و کلام سے ہے،وہ رازی رحمہ اللہ