کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 875
تک سب کچھ اس میں لے آتا ہے اور بعض اوقات فقہی فروع پر ایسے دلائل قائم کرتا ہے،جن کا آیت کے ساتھ سرے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔نیز وہ اس میں مخالفین کے دلائل کے جواب کا ذکر کرتا ہے،جیسے قرطبی رحمہ اللہ ہیں اور اسی طرح صاحبِ’’العلوم العقلیۃ‘‘،خصوصاً امام فخرالدین رحمہ اللہ جنھوں نے اپنی تفسیر کو حکما اور فلاسفہ کے اقوال اور اس جیسی دیگر چیزوں سے بھر دیا ہے۔وہ ایک چیز سے دوسری چیز کی طرف منتقل ہوتے ہیں،حتیٰ کہ دیکھنے والا تعجب کا اظہار کرتا ہے کہ ان چیزوں کا آیت کے مورد کے ساتھ کوئی تعلق نہیں،جن کو اس تفسیر میں ٹھونس دیا گیا ہے۔ابو حیان رحمہ اللہ نے’’البحر‘‘ میں لکھا ہے کہ امام رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں ایسی بہت سی طویل چیزوں کو جمع کر دیا ہے،جن کی علمِ تفسیر میں کوئی ضرورت نہیں ہے۔اس لیے بعض علما کا کہنا ہے کہ رازی کی تفسیر کبیر میں تفسیر کے سوا سب کچھ موجود ہے۔ اسی طرح اگر تفسیر کرنے والابدعتی ہو تو اس کا کام صرف آیات کی تحریف کرنا اور اس کو اپنے فاسد مذہب کے موافق بنانا ہوتا ہے۔وہ اس طرح کہ جب دور سے اسے کوئی منتشر چیز دکھائی دیتی ہے تو وہ اس کا طالب بن جاتا ہے یا اسے کوئی ایسی جگہ ملتی ہے جہاں اس کو تھوڑی سے گنجایش دکھائی دیتی ہے تو وہ اس پر چڑھ دوڑتا ہے۔ بلقینی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ میں نے تفسیر کشاف میں فرمانِ باری تعالیٰ: ﴿فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ﴾ کی تفسیر میں مناقشوں کے ذریعے اعتزال کا استخراج کیا ہے کہ مولف نے اس کی تفسیر میں لکھا ہے کہ دخولِ جنت سے بڑی کون سی کامیابی ہے؟ اس قول کے ذریعے اس نے اللہ تعالیٰ کی عدمِ رویت کی طرف اشارہ کیا ہے۔رہا ملحد تو اس کے کفر اور اللہ تعالیٰ کی آیات میں الحاد اور اللہ کے ذمے وہ باتیں لگانا جو انھوں نے نہیں کہی ہیں،پوچھ ہی نہ کہ وہ اس میں کس حد تک آگے بڑھا ہوا ہے۔پھر انھوں نے کہا ہے کہ اگر سوال کریں کہ ان حالات میں آپ کس تفسیر کا مشورہ دیتے ہیں کہ ناظر اور طالب اس کی طرف رجوع کرے اور اس پر اعتماد کرے؟ تو میں کہوں گا کہ امام ابو جعفر بن جریر الطبری المدنی رحمہ اللہ کی تفسیر۔معتبر علما نے اس پر اجماع اور اتفاق کیا ہے کہ تفسیر میں اس جیسی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی۔امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’تہذیب‘‘ میں لکھا ہے کہ تفسیر ابن جریر کی طرح کسی نے کوئی کتاب نہیں لکھی۔ پھر سیوطی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ میں نے ایک ایسی تفسیر لکھنا شروع کی،جو تفاسیرِ منقولہ،