کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 834
کی تحریف ہے۔کاش وہ بہ قدر ضرورت پر اکتفا کرتا،بلکہ وہ تو اطناب و تکثیر میں مبالغہ کرتا ہے،تاکہ اس کے عجز و تقصیر کا وہم نہ ہونے لگے۔چنانچہ آپ اس تفسیر کو ان ظاہری اعتزالات سے بھرا ہوا پائیں گے،جو اَفہام کی طرف جلدی کرتے ہیں۔نیز وہ مخفی چیزوں سے بھری ہوئی ہے،جس کی طرف اَوہام جلدی نہیں کرتے،بلکہ اس کے پھندوں اور جالوں کو صرف ہوشیار اور ماہر قسم کے لوگ ہی سمجھ پاتے ہیں اور وہ بھی بار بار تتبع کرنے سے،اس کی چالوں سے فضلاے آفاق میں سے کوئی ایک ہی آگاہ ہوتا ہے۔لہٰذا یہ بہت بڑی آفت اور مصیبت ہے۔ اس کتاب میں پائی جانے والی خرابیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کا مولف اولیاء اللہ پر،جو اس کے بندوں میں سے پسندیدہ بندے ہیں،طعن کرتا ہے اور طرفہ یہ کہ وہ فرطِ عناد کی بنا پر اپنے اس فعلِ بد سے غافل و بے پروا رہتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ: ﴿یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗ… الخ﴾ کی تفسیر میں امام رازی رحمہ اللہ نے کیا خوب کہا ہے کہ صاحبِ کشاف اس مقام پر اولیاء اللہ پر طعن کرنے میں بہت دور چلا گیا ہے۔اس نے اس میں وہ کچھ لکھ ڈالا ہے،جو کسی عاقل کو لائق نہیں ہے کہ وہ فحش کتابوں میں بھی اس طرح کی باتیں لکھا کرے۔اس نے اولیاء اللہ پر طعن کرنے کی جرات تو کی ہی ہے،وہ اللہ کے کلامِ مجید میں فحش کلام کرنے میں بھی کسی قدر جری دکھائی دیتا ہے۔ اس میں ایک خرابی یہ بھی ہے کہ اس نے فصائل و کمالات کے اظہار کے لیے اوہام و خیالات کے وساوس کا سہارا لیا ہے،مگر وہ مطلق طور پر تمام علوم میں لطائفِ محاورہ اور نفائسِ محاضرہ کے ساتھ موصوف ہے۔ اس نے اپنی اس کتاب میں بہت سے اشعار اور گہری مثالوں کا استعمال کیا ہے،جن کی بنیاد ہزل اور مذاق ہے۔نیز اس نے ٹھنڈے تیل پر قندیل روشن کی ہے،جبکہ یہ امر شرع و عقل سے بعید ہے،خاص طور پر اہلِ عدل و توحید کے ہاں مردود ہے۔ اس میں ایک عیب یہ بھی ہے کہ وہ اہلِ سنت و جماعت،جو فرقہ ناجیہ ہے،کا فحش عبارات کے ساتھ ذکر کرتا ہے۔حتیٰ کہ کبھی وہ ان کو’’مجبرہ‘‘ قرار دیتا ہے اور کبھی وہ علی سبیل التعریض ان کو کفر و الحاد کی طرف منسوب کرتا ہے۔جب کہ یہ تو شاطر قسم کے بیوقوفوں کا کام ہے،علماے ابرار کو تو یہ ہرگز