کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 833
کہ کتاب’’الکشاف‘‘ بلند قدر اور عظیم الشان کتاب ہے۔پہلے لوگوں کی تصانیف میں اس طرح کی کوئی تصنیف دکھائی نہیں دیتی اور نہ بعد والے لوگوں کی تالیفات میں کوئی کتاب اس کی مثل روایت کی گئی ہے۔ ماہرین کی تحریریں اس کی جچی تلی تراکیب کی متانت پر متفق ہیں۔کامل و بلیغ لوگوں کی زبانیں اس کے خوش نما اسالیب کی پختگی پر مجتمع ہیں۔مولف نے قوانینِ تفسیر کی تنقیح،اس کی براہین کی تہذیب،اس کے قواعد کی تمہید اور اس کے مقاصد کی تشبیہ میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اس کے بعد تفسیر کی کوئی کتاب،اگرچہ فرض کیا جائے کہ وہ نقیر و قطمیر (معمولی چیز) سے خالی نہیں ہے،جب اس کا الکشاف کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو آپ اس میں وہ رونق،چمک دمک اور شیرینی نہیں پائیں گے،جو کشاف کے اندر ہے،کیونکہ کسی بھی دوسری کتاب کا مولف اس کشاف کے نشانات پر چلتا ہے اور اسی کی خبریں پوچھتا ہے۔جب بھی اس نے اس کی کوئی ترکیب بدلی تو وہ غلطی کر بیٹھا اور مہمل بات کو لے آیا اور وہ دیوانگی و گمراہی کی پھسلن میں گر گیا۔ مگر اس کے باوجود جب تو حقیقتِ اَمری کی تلاش کرے گا تو اس جیسے اثرات و نشانات رکھنے والی کوئی کتاب نہیں ملے گی۔یہی وجہ ہے کہ اہلِ نظر نے اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور وہ اطرافِ عالم میں یوں مشہور ہوئی،جیسے نصف النہار کے وقت سورج ہوتا ہے۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ ادبی طرق پر چلنے میں چوک ہونے کی وجہ سے اور اربابِ کمال اور اعتدال و عمدگی کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے وہ بے کار نظروں میں آ گیا۔ بہ ہرحال اس نے اپنی کتاب میں ایسے امور کا اہتمام کیا ہے،جنھوں نے اس کی رونق کو اڑا دیا ہے اور اس کی خوش نمائی اور آب و تاب کو ختم کر دیا ہے۔اس کے صاف گھاٹ گدلے ہو گئے،جھلکتے ہوئے چشمے تنگ پڑ گئے اور اس کا بلند مرتبہ گر کر رہ گیا۔ جب بھی اس نے قرآنی آیات میں سے کسی آیت کی تفسیر کرنا چاہی تو اس کے مضمون نے اس کی خواہش کی مدد نہ کی اور اس کے مدلول و مفہوم نے اس کی مرضی کی پیروی نہ کی تو اس نے ٹھنڈے تکلفات اور جامد تعسفات (دھاندلیوں) کے ساتھ اس کو ظاہری مفہوم سے پھیر دیا۔جب کہ کسی نکتے کے بغیر اور بلا کسی ضرورت کے کسی آیت کو اس کے ظاہری مفہوم سے پھیرنا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے کلام