کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 832
اعتراضات کیے۔پس میں نے ان دونوں کے درمیان محاکمہ کیا ہے۔اس کا آغاز یوں ہوتا ہے:’’نحمدک یا من بیدہ مقالید الأمور۔۔۔الخ‘‘
شیخ ابو علی عمر بن محمد بن خلیل سکونی رحمہ اللہ صاحب’’المنہج المشرق‘‘ کی ایک کتاب ہے،جس کا نام’’مقتضب التمییز في اعتزال الزمخشری من الکتاب العزیز‘‘ ہے،اس کی ابتدا ان الفاظ سے ہوتی ہے:’’الحمد للّٰہ رب العالمین…الخ‘‘
بعض افاضل نے خطبۂ کشاف پر مختصر شرح لکھی ہے۔صاحبِ قاموس خطبہ کی شرح میں کہتے ہیں کہ بعض طلبہ نے کہا اور کشاف کا اہتمام کرنے والوں میں سے کسی نے اپنی تعلیق میں لکھا کہ زمخشری رحمہ اللہ نے کشاف کے خطبے میں’’الحمد للّٰہ الذي أنزل القرآن …الخ‘‘ یعنی اصل میں لفظ’’أَنْزَلَ‘‘ کی جگہ’’خَلَقَ‘‘ لکھا تھا۔بعد میں مصنف نے خود یا کسی اور نے اس واضح شناعت اور عیب سے بچنے کے لیے اس کو بدل دیا۔یہ قول انتہائی گرا ہوا اور ردی ہے۔
میں نے اپنے استاد پر اس قول کو پیش کیا تو انھوں نے اس کا انتہائی سخت انکار کیا اور کہا کہ دو وجہ سے یہ قول درست نہیں ہے:
1۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ زمخشری رحمہ اللہ ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنے کلام کے افتتاح میں’’أنزل‘‘ اور’’نزل‘‘ میں مذکورہ لطائف سے بے خبر ہو اور وہ ایسا کلمہ وضع کرے جو ان لطائف سے خالی ہو۔
2۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ اعتزال کی طرف اپنی نسبت کو ناپسند کرنے والا کب تھا؟ وہ تو اس پر فخر کیا کرتا تھا۔نیز اس نے اس کے بعد ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں،جو معنی میں صریح ہیں اور اس نے ان کے شنیع و بد نما ہونے کی ذرا پروا نہیں کی۔
میں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی جائے پیدایش میں ان کے پاس زمخشری رحمہ اللہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک محفوظ نسخہ دیکھا،جو کھرچ کر اصلاح کرنے کے اثرات سے محفوظ تھا۔انتھیٰ۔
شمس الدین اصفہانی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر’’الجامع بین التفسیر الکبیر والکشاف‘‘ میں لکھا ہے کہ میں نے’’الکشاف‘‘ کا خوب تتبع کیا تو دیکھا کہ اس کی ہر چیز کا ماخذ زجاج رحمہ اللہ ہے۔
الشیخ حیدر رحمہ اللہ نے’’حاشیۃ الکشاف‘‘ میں جزو ثالث کے قریب قریب اپنے اس قول’’الحمد للّٰہ الذي صور بکمال فضلہ وجوہ وجود الإنسان…الخ‘‘ کے بعد لکھا ہے