کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 831
مولف نے اس میں موجود تمام معروف احادیث کا احاطہ کیا ہے۔اس کے طرق کو واضح کیا اور اس کے مخرجین کا نام اسی طرز پر ذکر کیا،جیسے ہدایہ کی احادیث کی تخریج میں انھوں نے اختیار کیا۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے بہت سی ایسی مرفوع احادیث چھوٹ گئیں،جن کا زمخشری رحمہ اللہ اشارتاً ذکر کرتے ہیں۔اسی طرح وہ آثارِ موقوفہ کی تخریج کے بھی درپے نہیں ہوئے۔
ابو علی عمر بن محمد بن خلیل سکونی مغربی رحمہ اللہ (المتوفی: ۷۱۷ھ) کی ایک کتاب ہے،جس کا نام’’کتاب التمیز علی الکشاف‘‘ ہے۔اس میں مولف نے امام فخرالدین رحمہ اللہ وغیرہ پر کلام کیا ہے اور ایسے انداز میں تنقید کی ہے،جو کسی عالم کے شایان شان نہیں ہے،جیسا کہ سبکی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے۔
کشاف پر ایک حاشیہ ابو العباس احمد بن عثمان ازدی رحمہ اللہ شہیر بہ ابن البناء کا بھی ہے۔ایک حاشیہ یوسف بن حسین حلوانی رحمہ اللہ کا ہے۔ایک ابن الخطیب رحمہ اللہ کا فرمانِ باری: ﴿وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ﴾ تک حاشیہ ہے،اس کی ابتدا یوں ہوتی ہے:’’إن أحق ما یوشح بہ صدر الکلام بمقتضیٰ المقام…الخ‘‘
کشاف پر دو جلدوں میں ایک مکمل حاشیہ علاء الدین علی معروف بہ بہلوان رحمہ اللہ کا ہے،اس میں موصوف نے قطب الدین رازی رحمہ اللہ کے ساتھ مناقشہ کیا ہے۔
بعض افاضل نے کشاف کے اشعار کی شرح کی ہے۔یہ ایک مختصر شرح ہے اور اس کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے:’’إن أولیٰ ما یفتتح بہ الکتاب…الخ‘‘ کشاف کے یہ اشعار ایک ہزار کے لگ بھگ ہیں۔ان میں سے اکثر اشعار منثور المقاطع ہیں،جن کے معانی اکثر ادبا حتیٰ کہ فحول ادیبوں پر بھی مخفی ہیں۔
اسی طرح اشعار کی ایک شرح کا نام’’شرح شواہد الکشاف‘‘ ہے،جو چند جلدوں میں خضر بن محمد موصلی رحمہ اللہ نزیل مکہ مکرمہ کی تالیف ہے۔شہاب رحمہ اللہ نے اس کا ذکر کیا ہے۔
کشاف میں سے صرف زہراوین تک محاکمات بھی ہیں،جن میں سے ایک عبدالکریم بن عبدالجبار رحمہ اللہ کا محاکمہ ہے۔اس کا آغاز یوں ہوتا ہے:’’الحمد للّٰہ الذي أخرج العباد من ظلمۃ العدم إلی نور الوجود…الخ‘‘ مولف نے اس میں ذکر کیا ہے کہ قطب الدین رازی رحمہ اللہ کی شرحِ کشاف ایک عظیم الشان کتاب تھی،لیکن جمال الدین محمد اقسرائی رحمہ اللہ نے اس پر کئی ایک