کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 827
2۔ انھوں نے روایت اور اس کے جواب سے متعلق جو کچھ تھا،اس پر اپنی پوری کوشش صرف کی ہے،لیکن باریکیوں میں ان کا قدم پھسل جاتا ہے اور تعقلات میں وہ دھڑام سے گر جاتے ہیں۔مجھے نہیں معلوم کہ ایسا ان کی فطری استعداد کی کمی کی وجہ سے ہے یا معقولات میں ان کی مشق نہ ہونے کی بنا پر ہوتا ہے؟ 3۔ انھوں نے اس کی عبارت کا اختصار کرنے اور اس کے اشارے پر اقتصار کرنے میں بہت سا مبالغہ کیا ہے۔ 5۔ علامہ اکمل الدین محمد بن بابر کا حاشیہ۔کہتے ہیں کہ وہ زہراوین کے اختتام تک ہے،اس کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے:’’الحمد للّٰہ علام الغیوب کشاف الکروب…الخ‘‘ وہ ۷۸۶؁ھ میں فوت ہو گئے۔ 6۔ حاشیہ سعد الدین مسعود بن عمر تفتازانی رحمہ اللہ۔یہ طیبی رحمہ اللہ کے حاشیے کا ملخص ہے اور اس میں صرف عبارت کی تقیید کا اضافہ ہے۔محشی اس کو مکمل نہ کر سکے،بلکہ یہ صرف سورت یونس کے اوائل تک ہے۔انھوں نے سورت ص کے اول سے سورۃ القمر تک شرح کی۔موصوف ۷۹۲؁ھ میں وفات پا گئے۔ یہ ایک بے نظیر شرح ہے،کیونکہ یہ تحقیق،تدقیق اور لطائفِ توفیق و تلفیق پر مشتمل ہے۔مولف نے جوانی میں فرصت کے اوقات کو ضائع کیا اور آخری عمر میں یہ شرح لکھنے چلے،مگر اس کام کو مکمل کرنے سے پہلے ہی قاصد اجل نے آ لیا۔ ملا کاتب رحمہ اللہ کہتا ہے کہ میں نے تحقیق کی تو اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ کتاب شہور و عوام کے تعاقب میں ایک ایسا جوان گھوڑا ہے،جس پر کسی نے سواری نہیں کی اور ایسا موتی ہے جس میں کسی نے سوراخ نہیں کیا۔ 7۔ حاشیہ سید شریف جرجانی علی بن محمد رحمہ اللہ (المتوفی: ۸۱۶؁ھ) انھوں نے سورۃ البقرہ میں فرمانِ باری تعالیٰ: ﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یَسْتَحْیٖٓ اَنْ یَّضْرِبَ مَثَلًا﴾ تک یہ حاشیہ لکھا۔معلوم نہیں کہ انھوں نے اس کو کہاں تک مکمل کیا۔اس حاشیے پر محی الدین محمد بن الخطیب رحمہ اللہ (المتوفی: ۹۰۱ھ؁) کا حاشیہ ہے،جس کا آغاز یوں ہوتا ہے:’’إن أحق ما یوشح بہ صدر الکلام…الخ‘‘