کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 826
کو خواب میں دیکھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دودھ کا بھرا ہوا پیالہ تھمایا اور میری طرف اشارہ کیا۔میں نے وہ دودھ پیا،پھر میں نے وہ پیالہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑا دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس سے دودھ پیا۔محشی نے اس حاشیے کا نام’’فتوح الغیب في الکشف عن قناع الریب‘‘ رکھا۔موصوف ۷۴۳ھ میں وفات پا گئے۔
جہاں تک طیبی رحمہ اللہ کی مذکورہ بالا شرح کا تعلق ہے تو انھوں نے وجوہِ قراء ات کی تبیین،احادیث و روایات کی تصحیح،اس کی لغات کی تحقیق اور اس کے نکات کی تدقین جیسے متفرق مبادی و اصول کو لانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اس کے مسائل کی تقریر میں اپنی کوششیں صرف کیں۔
اس کے باوجود اس میں دو چیزیں موجود ہیں :
1۔ پہلی چیز جو افعال اختیاریہ میں سے نہیں ہے۔یہ کتاب،کتابِ متین اور حصنِ حصین ہے۔محض ظاہری علوم پر عبور حاصل کر لینے سے اس کا مکمل علم حاصل نہیں ہوتا،بلکہ اس کی کچھ شرائط ہیں،جن میں سے بعض مولف نے خود بیان فرمائی ہیں۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ زمانے نے رجوع کیا اور اس نے اس کی طرف رجوع کیا اور تیز ذہن کے ساتھ اس کا رد کیا اور اس کا حصول کوشش و کاوش کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
2۔ دوسری چیز یہ ہے کہ وہ نکات بیانیہ کو کثرت کے ساتھ وارد کرنے کے شوقین تھے۔
لہٰذا ان کی یہ شرح غیر مقصود میں اور موجود کے مقصود کے ساتھ اختلاط میں ایک ضخیم شرح بن گئی۔
4۔ قطب الدین تحتانی محمد بن محمد رازی رحمہ اللہ (المتوفی: ۷۶۶ھ) کی بھی ایک شرح ہے،لیکن وہ نامکمل ہے،وہ صرف سورۃ الانبیاء تک ہے،بلکہ وہ طیبی رحمہ اللہ کی شرح کا خلاصہ ہے۔انھوں نے اپنی شرح میں ہر باب کے اندر تنقیح کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا۔نیز اس میں’’شرح فاضل جیلو ہنی‘‘ کے اعتراضات اس بنیاد پر لائے ہیں کہ وہ اس کے مقاصد کو پورا کرنے والے ہیں،کیونکہ اس میں تین چیزیں ہیں :
1۔ انھوں نے کوئی مرتب شرح نہیں لکھی،جیسا کہ شروح کا متون کے ساتھ لکھنے کا قاعدہ اور طریقہ ہوتا ہے۔