کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 824
مذکورہ بالا دو علوم (معانی و بیان) میں ماہر و باکمال ہو،کیونکہ ہرنوع کے کچھ اصول و قواعد ہیں اور ایک فن کا ادراک دوسرے فن کے قواعد سے حاصل نہیں ہوتا۔فقیہ اور متکلم اسرارِ بلاغت سے دور کنارے پر ہیں،یہی صورتِ حال نحوی اور لغوی کی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کو اپنے اندر موجود سلیقے کی مدد سے پہچانتے تھے۔وہ طبعی طور پر بلاغت کی وجوہ کو اسی طرح پہچانتے تھے،جیسے وہ وجوہِ اعراب کو پہچانتے تھے۔وہ علم کی ان دونوں قسموں کے بیان کے محتاج نہیں تھے،کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کوئی ایک بھی ان دو علموں سے ناواقف نہ تھا۔جب اربابِ سلیقہ اس دنیا سے کوچ کر گئے تو اعراب و بلاغت میں سے ہر ایک کے قواعد وضع کیے گئے،تاکہ وہ چیز جس کا پہلے لوگوں نے طبعی طور پر ادراک کر لیا،بعد والے لوگ ان قواعد کے ذریعے اس چیز کو سمجھ لیں۔پس علمِ معانی و بیان کا حکم علمِ نحو والا ہی ہے۔ کتاب’’الکشاف‘‘ اس فن کو اپنے اندر سمائے ہوئے تھی تو وہ اطرافِ عالم میں مشہور ہو گئی۔ائمہ محققین نے اس پر بہت کچھ لکھنے کا اہتمام کیا۔چنانچہ کسی نے تو اس اعتزال کی نشان دہی کی ہے،جس میں اس کے مصنف درست بات سے ہٹ گئے ہیں۔کسی نے اس کی بیان کردہ وجوہِ اعراب کا مناقشہ کیا ہے،کسی نے اس کا حاشیہ لکھا،اس میں وضاحت اور تنقیح کی اور اشکالات کا جواب دیا۔کسی نے اس کی احادیث کی تخریج کرتے ہوئے تصحیح اور انتقاد کا کام کیا،کسی نے اس کا اختصار،تلخیص اور ایجاز کیا۔[1] ’’الکشاف‘‘ پر لکھی جانے والی کتابیں درج ذیل ہیں : 1۔ امام ناصرالدین احمد بن محمد بن منیر اسکندری مالکی رحمہ اللہ کی کتاب جس کا نام’’الانتصاف‘‘ ہے۔اس کتاب میں موصوف نے کشاف کے مولف کا اعتزال بیان کیا ہے،اعاریب پر مناقشہ کیا ہے اور احسن انداز میں جدل کیا ہے۔مولف مذکور ۶۸۳ھ؁ میں فوت ہو گئے۔ 2۔ ان کے بعد امام علم الدین عبدالکریم بن علی عراقی رحمہ اللہ آئے اور’’الإنصاف‘‘ نام کی کتاب لکھ کر اس میں کشاف اور انتصاف کے درمیان محاکمہ کیا۔موصوف نے ۷۰۴؁ھ میں وفات پائی۔ 3۔ امام جمال الدین عبداللہ بن یوسف بن ہشام رحمہ اللہ نے ایک مختصر لطیف کتاب میں کچھ اضافے