کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 823
کہ پھر ان علومِ بلاغت میں نظر و فکر کرنے والے لوگوں کا گروہ نمودار ہوا،جن علوم کے ذریعے سے وجہ اعجاز کا ادراک کیا جاتا ہے۔صاحب’’الکشاف‘‘ اس گروہ اور طریقے کا سرخیل ہے،اسی لیے اس کی شہرت مشرق و مغرب کے دور دراز علاقوں میں پھیل گئی۔پھر جب اس (الکشاف) کے مصنف کو یہ معلوم ہوا کہ وہ اس طریقے سے بہت نمایاں ہو گیا ہے تو اس نے بہ طور تحدیثِ نعمت اور شکر ادا کرتے ہوئے کہا: إن التفاسیر في الدنیا بلا عدد ولیس فیھا لعمري مثل کشافي [بلا شبہہ دنیا میں تفاسیر تو بے شمار ہیں،مگر میری عمر کی قسم! ان میں میری تفسیر الکشاف جیسی کوئی تفسیر نہیں ہے] إن کنت تبغي الھدی فالزم قراء تہ فالجہل کالداء والکشاف کالشافي [اگر تمھیں ہدایت درکار ہے تو اس کا مطالعہ ضرور کرو،جہالت ایک بیماری ہے اور کشاف اس کا شافی علاج ہے] اس نے اپنے خطبے میں ان اوصاف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تنبیہ کی ہے،جو اس سلسلے میں واجب اور ضروری ہیں۔البتہ وہ راست گو،نیکو کار ہو،دلوں میں اس کا نظام راسخ ہو اور قرار پکڑ جائے۔ بلقینی رحمہ اللہ نے کشاف میں یہ کہتے ہوئے اس کا تعاقب کیا: زمخشری نے اس چیز کا قصد کیا جس سے اس کے علم المعانی اور علم البیان میں ماہر و باکمال ہونے کا اشارہ ملتا ہے اور ایسے دو فن کیسے راجح ہو سکتے ہیں جو چند اوراق پر لکھے ہوئے ہیں اور صحابہ و تابعین کے بعد وضع کیے گئے ہیں۔عبدالقاہر اور سکاکی رحمہما اللہ نے اس کے بعد آ کر جو اصطلاح وضع کی،لوگوں پر وہ کوئی واجب نہیں ہے،جبکہ اکثر مقامات پر ان کے پاس کوئی دلیل بھی نہیں ہوتی۔رہا علمِ تفسیر تو وہ اخبار (و احادیث) کے ذریعے سے حاصل کیا جاتا ہے۔ میں (مولف کشف الظنون) کہتا ہوں کہ بلقینی اور زمخشری رحمہما اللہ کا توارد ایک جگہ پر نہیں ہے اور نہ زمخشری رحمہ اللہ اس بات کے انکاری ہیں کہ تفسیر کے حاصل ہونے کا انحصار احادیث و آثار پر ہے،بلکہ ان کا مقصود یہ ہے کہ یقینا تفسیر سے زائد چیزیں جیسے نکت اور فقرات کے محاسن کا استخراج،لطائفِ معانی جن میں فکر کا استعمال ہوتا ہے اور اسالیب قرآنیہ کا بیان،اسی شخص کو میسر آتی ہیں جو