کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 821
پر ایک کتاب جمع کی اور ابو جعفر رحمہ اللہ کا ان میں ذکر کیا۔موصوف ۳۲۴؁ھ میں فوت ہوئے۔ابن مجاہد رحمہ اللہ کی بھی قراء ات پر ایک کتاب ہے۔ ائمہ متقدمین نے حروف القرآن کے اعراب،ان میں سے شاذ اور ان کے معانی پر تالیفات کی ہیں۔انھوں نے ایک ایک حرف کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ تک با سند بیان کیا ہے،جیسے عباس بن الفضل،ابن سعدان،ابو الربیع الزہرانی،یحيٰ بن آدم،نصر بن علی الجہضمی،ابو ہشام الرفاعی اور ابن مجاہد رحمہ اللہ علیہم وغیرہ ہیں۔ کتاب المحبر في القراء ات: یہ محمد بن عبداللہ بن اشتہ الموذری رحمہ اللہ کی تالیف ہے۔ کتاب الوصل فيأسرار أم القرآن: مولف نے اس میں سورۃ الفاتحہ کی تفسیر پر کلام کیا ہے۔ الکشاف عن حقائق التنزیل: یہ امام علامہ ابو القاسم جار اللہ محمود بن عمر الزمخشری الخوارزمی رحمہ اللہ (المتوفی: ۵۳۸؁ھ) کی تالیف ہے۔مولف اس کتاب کی تالیف سے ربیع الآخر کی تئیس (۲۳) تاریخ بروز سوموار ۵۲۸؁ھ کو فارغ ہوئے۔ مولف نے اس کے خطبے میں لکھا ہے کہ طبیعتوں پر چھا جانے کے اعتبار سے سب علوم پر فائق علم،علمِ تفسیر ہے۔وہ علمِ تفسیر جس کا حاصل کرنا اور اس میں نظر و فکر کرنا ہر صاحبِ علم کو میسر نہیں آتا،جیسا کہ جاحظ رحمہ اللہ نے’’نظم القرآن‘‘ میں لکھا ہے۔ چنانچہ فقیہ اگرچہ فتاوٰی و احکام کے علم میں اپنے ہم عصر لوگوں پر نمایاں ہو جائے،متکلم اگرچہ فنِ کلام میں اہلِ دنیا پر بازی لے جائے،اخبار و قصص کو یاد کرنے والا اگرچہ ابن قریہ رحمہ اللہ سے زیادہ یاد کرنے والا ہو،واعظ اگرچہ حسن بصری رحمہ اللہ سے بڑا واعظ ہو،نحوی اگرچہ سیبویہ رحمہ اللہ سے بڑا نحوی ہو اور لغوی اگرچہ اپنے جبڑوں کی قوت کے ساتھ لغات کو چبا جائے۔ان میں سے کوئی ایک بھی ان راستوں پر چلنے کے درپے نہیں ہو سکتا اور نہ ان حقائق کی گہرائی تک پہنچ سکتا ہے،مگر وہی شخص جو ان دو علوم میں ماہر و باکمال ہو،جو علمِ قرآن کے ساتھ مختص ہیں اور وہ ہیں علم المعانی اور علم البیان۔اس نے لمبا عرصہ جملہ علوم سے کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کے بعد ان کی تحقیق میں مشقت اٹھائی ہو۔اس نے تحقیق