کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 808
خاص طور اور طریقے پر منحصر نہیں کرتے۔انتھیٰ۔ حق یہ ہے کہ اپنے موضوع پر حسنِ انشا،آیات کے ایک دوسری کے ساتھ ربط و ضبط،مختلف مسائل و لطائف جمع کرنے،لطفِ بیان،تقریر کی حلاوت اور بلاغتِ تحریر میں یہ دیکھنے میں تو آسان ہے،لیکن بہت معنی خیز ہے۔راہ گزر واعظین کی ہر طرف سے بات کو کھینچا گیا ہے،ہر وادی اور علاقے سے سوغات لائی گئی ہے،ہر طرز پر گفتگو کی گئی ہے اور اوضاعِ مفسرین کو یکجا کر دیا گیا ہے کہ یہ طبائع کے لیے بہت خوب و مرغوب بن گئی ہے۔اس کی انتہائی شہرت کی دلیل یہ ہے کہ یہ کئی بار طبع کے زیور سے آراستہ ہو چکی ہے،جو اس کے بارے میں کچھ کہنے سے مستغنی کرتی ہے۔مگر اس سب کچھ کے باوجود یہ فروگذاشتوں اور بعض اقوال کے ضعف سے خالی نہیں ہے۔ ﴿اِِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ﴾ کا وہ قصہ جو معتمد مفسرین کے اتفاق کے ساتھ موضوع ہے،وہ اس تفسیر میں اس کے وضع کے بیان کے بغیر درج کیا گیا ہے۔نیز اس میں بلاغت و عربیت وغیرہ کے بعض ایسے نکات بیان کیے گئے ہیں،جو نزولِ قرآن کے مقصود سے بہت دور ہیں۔آیات کے ربط کی طرف بہت التفات کیا گیا ہے،جو کوئی قابلِ قدر چیز نہیں ہے۔اسی پر آپ باقی کمزوریوں کو قیاس کر لیجیے۔ لیکن اس سب کے باوجود علماے ہند کی تصنیفات میں اس طرح کی تصنیف کم ہی دکھائی دیتی ہے۔خاص طور پر یہ تفسیر گور پرستوں کی بدعت اور ان کے شرک وغیرہ کے رد پر ایک روشن دلیل کی حیثیت رکھتی ہے۔اس تفسیر کا ماخذ کوئی خاص کتاب نہیں ہے۔محل و مقام کی ادنا مناسبت کے ساتھ ہر علم،فن اور کتابوں سے بغیر اضافت کے اس میں بہت کچھ منقول ہے۔حسنِ تحریر کے رشتے اور تعلق سے ہر طور طریقے کو اختیار کیا گیا ہے۔آج کے دور میں اہلِ علم کی ایک جماعت فتاوٰی لکھتے وقت اس تفسیر سے مدد لیتی ہے۔ اس تفسیر کا ایک ضمیمہ اور تکملہ بھی ہے،جو مولوی حیدر علی فیض آبادی رحمہ اللہ صاحب’’منتھیٰ الکلام‘‘ مناظر شیعہ کی تالیف ہے،جنھوں نے تفسیر کبیر وغیرہ سے مباحث کو فارسی میں ترجمہ کر کے لکھا ہے،لیکن وہ نامکمل ہے۔یہ ضمیمہ نواب سکندر بیگم مرحومہ رئیسہ بھوپال کے حکم سے لکھا گیا تھا۔فسح اللّٰہ في مدتہ۔