کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 803
علم غریب القرآن والحدیث:
امام خطابی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ غریب کلام وہ ہے جو پوشیدہ اور فہم سے بعید ہو،جیسے لوگوں میں سے غریب اس شخص کو کہتے ہیں،جو اپنے اہل و عیال سے کٹا ہوا وطن سے دور ہو۔اس کی دو قسمیں ہیں :
1۔غریب کلام سے وہ کلام مراد ہے،جس کا معنی بعید اور ایسا پوشیدہ ہو کہ نظر و فکر کے تکلف کے بغیر اس کا مفہوم سمجھ میں نہ آتا ہو۔
2۔کسی شخص کا کلام جو قبائلِ عرب سے بعید الدار ہو۔جب ان کی لغات سے کوئی کلمہ ہم تک پہنچے تو ہم اسے مستغرب سمجھیں۔[1] انتھیٰ حاصلہ۔
راقم الحروف نے اپنی کتاب’’الحطۃ في ذکر الصحاح الستۃ‘‘ میں اس علم پر کلام کیا ہے اور قرآن و حدیث کے متعلق کتبِ غریب کا اس میں بیان کیا ہے،لہٰذا اس کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔اس فن کی اکثر کتابیں مذکورہ بالا دو قسم کے غریب کلام پر مشتمل ہیں۔
غریب القرآن: اہلِ علم کی ایک جماعت نے اس پر الگ کتابیں تالیف کی ہیں،ان میں سے کچھ مولفین درج ذیل ہیں :
1۔ابو الحسن سعید بن مسعدۃ الاخفش الاوسط رحمہ اللہ (المتوفی: ۲۲۱ھ)
2۔القنیبی رحمہ اللہ۔
3۔نضر بن شمیل البصری رحمہ اللہ (المتوفی: ۲۰۳ھ)
4۔ابو فید مرثد بن حارث (المتوفی: ۱۹۵ھ)
5۔مورج بن عمرو النحوی السدوسی رحمہ اللہ (المتوفی: ۱۷۴ھ)
6۔ابان بن تغلب بن رباح ابی سعید البکری رحمہ اللہ (المتوفی: ۱۴۱ھ)
7۔ابو بکر احمد بن کامل رحمہ اللہ (المتوفی: ۳۵۰ھ)
8۔ابو عبید قاسم بن سلام الحریری الکوفی رحمہ اللہ (المتوفی: ۲۲۴ھ)
9۔ابو بکر محمد بن الحسین المعروف بہ ابن درید الکوفی رحمہ اللہ (المتوفی: ۳۲۱ھ) موصوف اپنی کتاب کو مکمل نہ کر سکے۔
[1] مسند أبي یعلیٰ (۱۱/۴۳۶) مصنف ابن أبي شیبۃ (۶/۱۱۶) اس کی سند میں عبداللّٰه بن ابی سعید المقبری ضعیف ہے۔تفصیل کے لیے دیکھیں : سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ للألباني،رقم الحدیث (۱۳۴۵)
[2] الإتقان (۲/ ۴۸۶)
[3] کشف الظنون (۲/ ۱۱۹۷)